امام خمینی (رح)

امام خمینی (رح) کے تدبر اور باریک بینی

دشمن یہ خیال کررہے تھے کہ اب امام تدریس کرنے کے قابل نہیں رہے اور اگر تدریس کریں گے بھی تو ناکام معلم کی طرح

حوزہ علمیہ نجف اشرف زمانہ قدیم سے آج تک شیعہ کے بزرگ ترین فقیہ علماء کا مرکز رہاہے۔ امام خمینی (رح) کے زمانے میں، یہ قدیمی ترین حوزہ کہ جو اپنی ہزار سالہ روشن اور تابناک تاریخ کا حامل ہے اور اس طولانی مدت میں ہمیشہ وہ اسلام کی عزت، سربلندی اور افتخار کا سبب رہ چکا ہے، ایک ناپاک جماعت کے ہاتھوں ختم ہوچکا تھا۔ جب امام خمینی (رح) کو جلاوطن کیا گیا تو امام نجف اشرف چلے گئے۔ ہم لوگ تو یہ سوچ رہے تھے کہ امام اب اتنی زیادہ مشکلات و پریشانیوں کے سبب اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت ایران و عراق کے سیاسی دباؤ اور اجتماعی و سیاسی امور میں آپ کی حد درجہ مشغولیت اور تنگی وقت کی وجہ سے وہ سابقہ تحقیق و پژوہش اور اسی طرح فقہ و اصول کے مسائل کا دقیق مطالعہ اور ان کی تدریس نہیں کر پائیں گے۔

لیکن جیسے ہی آپ نے تدریس کا آغاز کیا تو ہمیں ایسے لگا کہ گویا ہم علم کے سمندر سے سیراب ہو رہے ہیں۔ اگر چہ مشکلات حد سے بڑھ چکیں تھیں، لیکن دوران تدریس ایسے لگتا تھا کہ جیسے انہیں سوائے درس و تدریس کے اور کوئی کام ہی نہیں کیونکہ تدریسی اصولوں کے تمام نشیب و فراز کی رعایت، موضوع درس کی تمام تر نزاکتوں اور باریکیوں پر مکمل گرفت، مفید ترین تحقیقی نکات کہ جو بشریت کے اس بڑے عالم کے ذہن میں نقش تھے اور الفاظ کی شکل میں آپ کی زبان سے جاری ہوتے تھے وہ دوست و دشمن سب کے لئے ایک معجزہ سے کم نہ تھے۔

دشمن یہ خیال کررہے تھے کہ اب امام تدریس کرنے کے قابل نہیں رہے اور اگر تدریس کریں گے بھی تو ناکام معلم کی طرح لیکن جب وہ لوگ آپ کی کلاس میں شرکت کرتے تو انگشت بدندان رہ جاتے اور اپنی اس بدبینی اور سوء ظن پر خود کو ملامت کرتے، البتہ جو بات واضح اور آشکار ہو، اس کے سمجھانے اور بیشتر توضیح دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جس کسی نے بھی آپ کے نجف کے زمانے کی تالیفات کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ کس پائے کی علمی شخصیت تھے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ان تمام انفرادی اور اجتماعی مشکلات کے ساتھ ساتھ اور سیاسی دباؤ کے باوجود، آپ پوری دنیا کی تازہ ترین خبروں سے ہر وقت آگاہ رہنے کے ساتھ ساتھ مسلمین جہان کی مشکلات سے بھی باخبر رہتے تھے اور حتی کہ جب آپ کی نجف کے زمانے کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو وہاں بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ یہ کام کسی معمولی انسان کے بس کی بات نہیں؛ کیونکہ ایسے لگتا ہے جیسے مولف مخزن وحی سے علم لے لے کر گفتگو کررہاہے۔

اسی طرح جب آپ کسی مئلہ کی تحقیق کے بعد اسے سامعین کے حضور بیان فرماتے تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس شخص کو سوائے فقہی مسائل میں تحقیق کرنے کے اور کوئی کام ہی نہیں کیونکہ آپ سامعین کے لئے، مشکلات فقہ کو اس طرح آسان کر کے بیان فرماتے کہ گویا امام صادق (ع) کسی مسئلہ کی تحقیق کررہے ہوں۔ جب تک کوئی شخص آپ کی چار جلدوں پر مشتمل کتاب "مکاسب" اور ایک جلد پر مشتمل کتاب "الخلل فی الصلاة" کا خود مطالعہ نہ کرلے کہ جنہیں آپ نے نجف میں رہتے ہوئے لکھا تھا تو اس وقت تک وہ صحیح معنوں میں آپ کی عظمت کو درک نہیں کرسکتا۔

یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے کہ علمائے قدیم اور علمائے معاصر میں آج تک کوئی ایسا عالم پیدا نہیں ہوا کہ جس نے "مکاسب" جیسی معتبر اور مستند کتاب لکھی ہو کیونکہ اس میں بالکل آپ کے مقام فکری، مقام استنباط، تدبر، باریک بینی اور طریقہ تحقیق کا کسی اور سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا....

*آیت اللہ سید عباس خاتم یزدی

ای میل کریں