صدام کی پیشکش اور امام خمینی(رح) کا رد عمل
حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمود دعائی نے ایک کانفرنس میں امام خمینی(رح) کی شخصیت کے بارے میں کہا کہ امام (رہ) ہمیشہ تشدد اور انتہا پسندی کے مخالف تھے۔
ایلنا خبر رسان ادارے کی رپورٹ کے مطابق حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمود دعائی نے ایک کانفرنس میں اپنے بیان کے دوران کہا اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد پڑوسیوں سے تعلقات بنانا خاص کر عراق سے اچھے تعلقات قائم کرنا امام خمینی(رح) کے اہداف میں سے ایک تھا۔
سید محمود دعائی نے کہا کہ امام خمینی(رح) نے مجھ سے فرمایا کہ عراق میں سکونت کے دوران وہاں کے حکام سے میرے اچھے تعلقات برقرار ہوے ہیں میں چاہتا ہوں کہ دونوں ملکوں میں اچھے روابط برقرار رہیں لہذا ان کو یقین دہانی کے لئے آپ اسلامی انقلاب کے سفیر کی حیثیت سے وہاں جائیں اور دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات برقرار رکھیں۔
امام خمینی (رح) کے شاگرد عراق کی حکومت کی طرف اشارہ کرت ہوے کہا اس وقت عراق میں دو طائفے عراق کی حکموت میں اہم کرداد نبھا رہے تھے جن میں سے ایک طائفہ کی سربراہی حسن لبکر جبکہ دوسرا گروہ صدام حسین کی سربراہی میں اپنی سرگرمیاں انجام دے رہا تھا حسن البکر کہ جس نے ایران کی اچھی نیت کو درک کر لیا عراق میں دوسرے گروہ نے بغاوت کر کے اسے حکومت سے برکنار کر دیا۔
دعائی نے کہا میں نے ایک مرتبہ عراق کی وزارت خارجہ میں ایران کے خلاف عراق کی حرکتوں اور کاروائیوں پر اعتراض کیا انہوں نے کہا عراق کے وزیر خارجہ نے میرے اس اعتراض کو صدام حسین تک پہچایا جس کے جواب میں صدام نے کہا کہ ایران کا رہبر ایک با اختیار نمایندہ عراق بھیجے تانکہ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات حل کئے جا سکیں سید محمود نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوے کہا میں نے بھی صدام کی اس پیکش کو امام خمینی(رح) کے سامنے بیان کیا امام (رہ) نے فرمایا اس کا جواب بعد میں دوں گا۔
حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمود دعائی نے امام خمینی(رح) کے رد عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ دوسرے دن ایک اہم اجلاس میں امام خمینی(رح) نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے عراقی حکام کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے مجھے ان پر کوئی یقین نہیں وہ ہمیں موجودہ حالات میں کمزور سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ صدام حسین سے کہیں کہ کچھ عرصہ بعد ایران میں صدارتی پارلیمانی الیکشن ہوں گے اس کے بعد جو بھی صدر ہو گا وہ صدام سے بات چیت کرے گا کیوں کہ صدر ہی ایرانی قوم کا اصلی نمایندہ ہے۔
واضح رہے کہ صدام حسین نے امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف آٹھ سال تک جاری رہنے والی جنگ کا آغاز کیا تھا جس میں فرانس برطانیہ اور دنیا کی دوسری بری طاقتیں اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور سمجھ کر اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کے لئے صدام حسین کا ساتھ دے رہی تھیں لیکن ایرانی قوم نے اپنے رہبر کے فرمان پر لبیک کہتے ہوے اس جنگ میں جیت حاصل کی ۔اس جنگ میں ہزاروں جوانوں نے جام شہادت نوش فرما کر اسلام اور اسلامی ملک کی حفاظت کی جہاں آج بھی امریکہ، اسرائیل اور آل سعود اس اسلامی ملک کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں