سید الشہداء کی تحریک کی کامیابی اور انقلاب اسلامی
کیایہ اس انقلابی تحریک کی کامیابی نہیں کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے ذریعہ سے لڑی گئی جنگوں کے بعد آج تاریخ میں نہ ان کے کمانڈروں کا تذکرہ ہے نہ نامور شہسواروں کا لیکن حسین کے ۷۲ جانثار ہر صاحب احساس کے دل کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں ۔
کیوں نہ ہو توحید و حق گوئی اس انقلابی تحریک میں عملی طور پرنمایاں نظر آتے ہیں اور اسی سبق نے ایران کے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کو یقینی طور پر کربلا کے درس سے الہام لینے اور اس واقعہ کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے کیونکہ اسلامی انقلاب نے کربلاسے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اسی کو اپنے لئے نمونہ قرار دیا ایران کے عوام نے اسلامی انقلاب کو آسانی سے کامیاب نہيں بنایا ہے اس نے اپنے ملک ميں جو اسلامی نظام قائم کیا ہے وہ آسانی سے ممکن نہيں ہوا ہے ۔ گذشتہ ۳۹برسوں ميں ایران کے عوام نے اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہيں اور جب تک قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا کوئی طاقت نہیں ہے اس انقلاب کو گزند پہنچا سکے اس لئیے کہ کربلا قربانیوں کے تسلسل کا نام ہے۔
عزم زینبی اور ہماری سنگین ذمہ داری :
حضرت امام حسین علیہ السلام نے جو انقلاب میدان کربلا میں بپا کیا تھا اس کی حفاظت میں امام زین العابدین اور جناب زینب کبری سلام اللہ علیھما نے جو قربانیاں دی ہيں وہ کربلا کے میدان میں قربانی دینے والوں کی قربانیوں سے کہیں زیادہ سخت و دشوار تھیں اور یہی بات ہماری ذمہ داری کو بھی بڑا کر دیتی ہے کہ قربانیوں کے بعد ان کی حفاظت کرنا بہت دل گردے کا کام ہے یہ کام زیینبی کام ہے اسکو انجام دینے کے لئیے عزم زینبی کی ضرورت ہے ۔ اگر ایران و عراق اور شام میں استعماری گماشتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کربلا کے جانباز سپاہی اپنی تاریخ خود رقم کر سکتے ہیں اور اپنے بیدار قائد کی رہبری میں کربلا والوں کے درس سے الہام لیتے ہوئے اپنی تقدیر خود لکھ سکتی ہے اور انکا دنیا کی کوئي بھی طاقت کچھ بھی نہيں بگاڑ سکتی تو ہم بھی اپنے سماج و معاشرہ میں ایک انقلابی روح بیدار رتے ہوئے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کر سکتے ہیں اس لئیے کہ جہاں کربلا انقلابی آہنگ و جذبہ کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے وہیں دشمن کو پہچاننے کا بھی ایک بہترین موقع ہے یزید شمر، ابن زیاد و عمرسعد صرف وہی نہیں تھے جو سن اکسٹھ ہجری میں کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر ظلم کرنے کے لئے موجود تھے بلکہ آج بھی یزید، شمر، حرملہ، ابن زیاد اور عمرسعد پائے جاتے ہيں جو اسلام کو مٹانے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے طاقت کے ہر حربے کا استعمال کر رہے ہيں آج بھی وقت کے یزید کربلا کے پیغام کو مٹانے کے در پئے رہتے ہيں آج بھی وقت کے ابن زیاد ہر اس تحریک اور انقلاب کو نابود کرنے کی پوری کوشش کرتے ہيں جو عاشورا سے درس لے کر آگے بڑھ رہی ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت کا بھی یزید و شمر و حرملہ و ابن زیاد پیغام حسینیت کو نہيں روک سکا تھا اورآج کے بھی یزید عاشورا کے آفاقی پیغام کو نہیں روک پا رہے ہيں اگرچہ پیغام کربلا پرعمل کرنے والوں کو اس کے لئے بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے اورفوجی سیاسی اور اقتصادی طور پر سامراجی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن مصباح الہدی و سفینۃ النجات کی نصرت و مدد کے زیرسایہ حسینیت کے پیرو بڑی سے بڑی مشکلات کا بہت ہی ڈٹ کر مقابلہ کررہےہیں اور تمام مسائل و مصائب کاسامنا خندہ پیشانی کے ساتھ کرتے ہوئے ارتقاء کے مراحل کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ آج کون نہيں جانتا کہ اگرکل یزید اور اس کے کارندے ابن زیاد و حرملہ شمر جیسے فاسق و فاجر و بدشعار عناصر اسلام کے دشمن تھے تو آج امریکہ اور اس کے اتحادی خاص کر آل سعود و صہیونی حکومت و انکے کماشتے دین اسلام کے کھلے دشمن ہيں اور اگر آج دنیا میں توحیدی و اسلامی نظام سے عالمی سامراج کی کھلی دشمنی ہے تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ جہاں بھی کربلائئی فکر کا وجود ہے سامراج کو اندازہ ہے کہ یہ فکر کبھی بھی انکے دنیا بھر میں پھیلے گماشتوں کو تخت حکومت سے نیچے پھینک کر اللہ کی کبریائی کا پرچم لہرا سکتی ہے لہذا عالمی سامراج کی سازشوں کو سمجھنا تمام حسینیوں اور مسلمانوں پر فرض و لازم ہے اور اگر اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی کوتا ہی کی گئی تو رسول اسلام امام حسین اور سب سے بڑھ کرخدا کے حضور کو سب کو جواب دینا ہوگا آج محرم اور کربلا جب سب کو ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دے رہا ہے اور دشمنوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نقاب کو اتار پھینکنے کے لئے آگے قدم بڑھانے کا حکم دے رہا ہے تو ایسے میں اگر ہم امام عالی مقام کے عاشق ہونے کا دم بھرتے ہیں تو عملی طور پر اپنے آپ کو بہرحال ثابت کرنا ہوگا۔ آج کربلا کی قربانیوں کی روشنی میں عراق وشام فلسطین اور افغانستان و پاکستان سمیت دنیا کے ديگر علاقوں میں وقت کے یزیدیوں کے ظلم کے خلاف سب کو آواز بلند کرنا ہوگا اسی صورت میں عزاداری اور محرم کا حق ادا ہو سکے گا۔ کیونکہ عزاداری نام ہے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور مظلوم کی مظلومیت کو عام کرنے کا ۔