قیامت میں سب سے پہلے کس کی شفاعت قبول ہو گی؟
علامہ طبرسی (رح) فرماتے ہیں کہ اسلامی مفسرین کے درمیان یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے۔ یعنی روز قیامت پروردگار عالم اپنے ہاتھوں میں لواء الحمد لئے ہوگا اور تمام پیغمبر اس کے نیچے جمع ہوں گے، آپ(ص) سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہوں گے اور سب سے پہلے آپ کی شفاعت ہی قبول کی جائے گی ۔
ولایت پورٹل:قیامت کے اہم واقعات میں سے ایک شفیع حضرات کے ذریعہ بعض گنہگاروں کی شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی ہے پروردگار عالم شفاعت کے ذریعہ سے ان لوگوں کے گناہ بخش دے گا اور یہ بھی اہل بہشت میں شامل ہوجائیں گے، عقیدۂ شفاعت کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کیوں کہ قرآن مجید اور سنت پیغمبر اکرم(ص) میں صراحت کے ساتھ مسئلہ شفاعت کو بیان کیا گیا ہے مسئلہ شفاعت قرآن کے مسلّم مسلمات میں سے ہے قرآن نے اس کے بعض احکام اور خصوصیات بھی بیان کئے ہیں مثلاً شفاعت صرف خداوند عالم کی اجازت سے ہی ہوگی ہے:’’مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ‘‘۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے: ’’مَا مِنْ شَفِیعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِہ‘‘۔
مسئلہ شفاعت کے بارے میں قرآن مجید نے بت پرستوں اور مشرکوں کے عقیدہ کو باطل اور غلط قراردیاہے کیوں کہ بت پرست اپنے خداؤں کی الوہیت کے باعث ان کی شفاعت کے قائل تھے اسی بناء پر وہ ان کی شفاعت کے لئے کسی قسم کی قید اور شرط کے قائل نہ تھے اور گویا انہیں اذن الٰہی کی بھی ضرورت نہیں تھی قرآن کریم اس عقیدہ کو باطل قرار دیتے ہوئے اعلان کرتا ہے:’’ وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اﷲِ مَا لاَیَضُرُّہُمْ وَلاَیَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَائِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اﷲِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اﷲَ بِمَا لاَیَعْلَمُ فِی السَّمَاوَاتِ وَلاَفِی الْأَرْضِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُون‘‘۔
ترجمہ: وہ خدا کو چھوڑ کر ان لوگوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ دے سکتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری شفاعت کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع کر رہے ہو جس کا علم اسے آسمان اور زمین میں کہیں نہیں ہے وہ پاک وپاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند وبرتر ہے۔
اس بناء پر جن آیتوں میں مشرکین کی بتوں سے شفاعت طلبی کو باطل قرار دیا گیا ہے ان آیات کو دلیل بنا کر اسلام میں شفاعت کا یکسر انکار کردینا واضح مغالطہ اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے کیونکہ شفاعت کے اسلامی نظریہ میں نہ شفاعت کرنے والوں کی الوہیت کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی ان کی شفاعت کے بلا قید و شرط ہونے کا کوئی قائل ہے۔
قرآن کریم نے فرشتوں کو بھی ان شفاعت کرنے والوں میں قرار دیا ہے کہ جو صرف خدا کے پسندیدہ لوگوں کی ہی شفاعت کریں گے:’’بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُونَ لاَیَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَیَشْفَعُونَ إِلاَّ لِمَنْ ارْتَضَی‘‘۔
قرآن مجید کے بیان کے مطابق روز قیامت پیغمبر اکرم(ص)’’مقام محمود‘‘کے مالک ہوں گے جس کے بارے اسلامی مفسرین نے متعدد روایات سے استناد کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ’’ مقام محمود‘‘ سے مراد ’’شفاعت ‘‘ ہے۔
علامہ طبرسی (رح) فرماتے ہیں کہ اسلامی مفسرین کے درمیان یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے۔ یعنی روز قیامت پروردگار عالم اپنے ہاتھوں میں لواء الحمد لئے ہوگا اور تمام پیغمبر اس کے نیچے جمع ہوں گے، آپ(ص) سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہوں گے اور سب سے پہلے آپ کی شفاعت ہی قبول کی جائے گی ۔
ایک حدیث نبوی میں جسے تمام مسلمانوں نے قبول کیا ہے روز قیامت آنحضرت(ص) کی شفاعت کے بارے میں وارد ہوا ہے:’’انما ادّخرت شفاعتی لاھل الکبائر من امتی۔
ترجمہ: بیشک میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے گناہان کبیرہ مرتکب ہونے والوں کے لئے ذخیرہ کر رکھا ہے۔
بڑے گناہوں سے شفاعت کے مخصوص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے خود یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص بڑے گناہوں سے پرہیز کرے گا اس کے دوسرے گناہ بخش دئے جائیں گے۔
چنانچہ ارشاد ہوتاہے:’’إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیمًا‘۔