مورخہ 11/ ذی القعدہ سن 148 ھ ق کو شیعوں کے آٹھویں امام اور رسولخدا کے جانشین حضرت علی بن موسی الرضا (ع) کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔ آپ نے مدینہ منورہ میں امام موسی کاظم (ع) کی صلب سے اور آپ کی شریک حیات نجمہ خاتون کے بطن مبارک سے دنیا و ما فیھا کو اپنے نورانی وجود سے منور فرمایا اور عالم کو ضوباران بنادیا ہے۔
حضرت نجمہ خاتون سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: جب میرے عظیم المرتبت فرزند میرے بطن میں تھے تو میں نے کسی طرح اپنے شکم میں بوجھ اور گرانی کا احساس نہیں کیا اور جب سوتی تھی تو میرے شکم سے خداوند متعال کی تسبیح، تہلیل اور تمجید کی آواز آتی تھی اور میں گھبرا جاتی اور ڈر جاتی تھی اور جب بیدار ہوجاتی تھی تو کوئی آواز نہیں آتی تھی۔ جب میرا فرزندپیدا ہوا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا اور اپنے پاکیزہ سر کو آسمان کی جانب اٹھایا، ان کے ہونٹ حرکت میں تھے اور کچھ کہا جو میں سمجھی نہیں۔ اس وقت امام موسی بن جعفر کاظم (ع) میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: مبارک ہو تمہیں اے نجمہ! تمہارے رب کی کرامت! ....
اس کے بعد میں نے اس فرزند کو ایک سفید جامہ میں لپیٹا اور آنحضرت (امام کاظم ع) کو دیا۔ انہوں نے اس بچہ کے داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامہ کہی اور آب فرات مانگا اور ان کےمنہ میں ڈالا۔ پھر مجھے فرمایا: جان لو کہ یہ روئے زمین پر بقیة اللہ اور میرے بعد خدا کی حجت ہے۔
روایت کی گئی ہے کہ حضرت امام موسی بن جعفر (ع) اپنے بچوں سے فرماتے تھے کہ اے میرے اولاد! تمہارا بھائی علی بن موسی عالم آل محمد ہے۔ ان سے اپنے معالم دین کے بارے میں سوال کرو اور ان کی فرمائشات کو یاد رکھو۔ یقینا میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ وہ باربار فرماتے تھے: عالم آل محمد (ص) تمہاری صلب سے ہے۔ اے کاش میں ان کا ادراک کرتا۔ یقینا وہ امیر المومنین (ع) کے ہم نام ہے۔
شیخ صدوق (رح) ابراہیم بن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضرت امام رضا (ع) نے اپنے کلام سے کسی پر ظلم و جفا کی ہو اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی کسی کی بات کاٹی ہو۔ یعنی کسی کی گفتگو کے دوران بات کریں اور اپنی توانائی کے حدود میں کبھی کسی کی حاجت کو رد نہیں کیا اور کبھی کسی کے سامنے پاؤں نہیں پھیلائے۔ بزم ہو یا لوگوں کے سامنے کبھی ٹیک لگا کر نہیں بیٹھے۔ میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ اپنے کسی غلام کو برا بھلا اور سخت بات کہہ رہے ہوں۔ کبھی آپ نے اپنا تھوک دور نہیں پھینکا، کبھی آپ نے قہقہہ نہیں لگایا، بلکہ آپ تبسم فرماتے اور مسکراتے تھے اور جب تنہائی ہوجاتی تھی اور آپ کے دسترخوان بچھایا جاتا تھا اور آپ اپنے تمام غلاموں کو دسترخوان بلاتے یہاں تک دربان اور محافظ و غیرہ کو بھی اس کھانے سے دیتے تھے۔
آپ کی عادت یہ تھی کہ آپ راتوں کو کم سوتے اور رات کے اکثر حصہ میں بیدار رہتے تھے، بکثرت روزہ رکھتے تھے اور ہرماہ میں تین دن روزہ رکھتے یعنی ہر ماہ کی پہلی جمعرات، آخری جمعرات اور درمیان کے بدھ کا روزہ کبای آپ نے ترک نہیں کیا اور فرماتے تھے: ان تین دنوں کا روزہ ایک دہر کے روزہ کے برابر ہے۔ آنحضرت کثرت سے نیکیاں کرتے، پوشیدہ طور سے بہت صدقے دیا کرتے تھے اور زیادہ تر آپ کے صدقے رات کی تاریکی میں ہوا کرتے تھے۔ لہذا اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میں نے آنحضرت (ع) جیسا کسی کو دیکھا ہے تو اس کی بات کی تصدیق نہ کرو۔
امام خمینی فرماتے ہیں:
مامون عباسی تمام دھوکہ دھڑی اور فریب کے ساتھ حضرت امام رضا (ع) کو «یابن عم» اور «یابن رسول الله» بھی کہتا ہے اور آپ کی خوشامد کرتا ہے لیکن آپ کو تحت نظر بھی رکھے ہوا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں کسی دن قیام نہ کردیں اور اس کی غاصب اور باطل حکومت کا تختہ نہ پلٹ جائے؛ کیونکہ آپ فرزند رسول ہیں اور ان کے حق میں وصیت کی گئی ہے لہذا انہیں مدینہ میں چھوڑا نہیں، ظالم و جابر حکام سلطنت اور بادشاہت کے خواہاں تھے اور ہر چیز کو اسی سلطنت اور حکومت پر فدا کردیتے تھے۔