حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا میری مشکل کشا تھیں:امام خمینی
جس دوران میں امام خمینی (رح) قم میں مقیم تھے اور اس کے قبل و بعد بھی جب آپ قم تشریف لاتے بڑے خضوع کے ساتھ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے مزار پر حاضر ہوتے اور بہت ہی خلوص کے ساتھ ان سے متوسل ہوتے اور بڑے شوق سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی ضریح مبارک کو چومتے تھے
امام(رہ) فرماتے ہیں: قم میں مجھے جب بھی کوئی مشکل ہوتی تھی میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے حرم میں جاتا اور گھنٹوں وہیں بیٹھا رہتا اور اپنی مشکل حل کرواتا تھا حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا میری مشکل کُشا تھیں۔
واضح رہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا ساتویں امام موسی کاظم ع کی بیٹی اور امام رضا ع کہ بہن ہیں حضرت امام رضا علیہ السلام ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں : " مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَنى"جس نے شہر قم میں معصومہ کی زیارت کی اس نے ہماری زیارت کی ۔ امام معصوم کی جانب سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کو یہ لقب ملنا آپ کی شان و منزلت کی بہترین دلیل ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خاندان اہلبیت (ع) کی ایک بی بی قم میں دفن ہوں گی جس کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔آپ کی ولادت یکم ذیقعدہ 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں حضرت امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت (ع) کے مخالف تھے لہٰذا انھوں نےحکومتی اہلکاروں سے مل کر حضرت فاطمہ معصومہ (س) اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سے افراد شہید ہوگئے حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔