جہاں جہاں یہ لہو گرا ہے
زمین کا سینہ دہک اٹھا ہے
حسینیت کیوں نہ مسکرائے
یہی تو میدانِ کربلا ہے
دھویئں کے بادل ہزار امڈیں
مگر وہ سورج چمک رہا ہے
ستم گروں کو یہی گماں ہے
کہ ظلم کی رات بے کراں ہے
وہ سوچتے ہیں کہ یہ اندھیرا
ہمارے محلوں کا پاسبان ہے
وہ مطمئن ہیں کہ اب ابد تک
کسی کرن کا گذر کہاں ہے
مگر سنا ہے کہ ذرہ ذرہ
درفشِ کا وہ میں ڈھل رہا ہے
جہاں جہاں یہ لہو گرا ہے
جہاں جہاں یہ لہو بہا ہے
یہ کہکشاں یہ لہو کے قطرے
یہاں سے لاوہ اُبل پڑے گا
یہاں سے پھوٹے گا ایک طوفان
یہاں سے لشکر نکل پڑے گا