امام خمینی (رح) نے قم المقدسہ ایران کے مدرسہ فیضیہ میں عید سعید فطر سے متعلق ایک تجزیہ فرمایا:
عید فطر کی خوشی تمام مسلمانوں کو مبارک ہو، امید ہے کہ اس مبارک ماہ میں خداوند عالم تمام مسلمانوں کی عبادت کو قبول فرمائے۔ اسلام دین سیاست ہے، ایک ایسا دین ہے جس کے احکام دین سیاست واضح طور پر دکھائے دیتی ہے اور اسلامی ممالک کی مساجد میں شہروں سے لیکر، قصبوں اور دیہات کی مساجد میں روزانہ چند بار اجتماع ہوتا ہے اور لوگ نماز و دعا کے لئے مساجد میں آتے ہیں تا کہ ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے حالات سے باخبر ہو اور ان پر گذرنے والی روداد کا سد باب کرنے کی فکر کرے۔
دوسری طرف ہر ہفتہ ایک عظیم اجتماع منعقد ہوتا ہے تا کہ نماز جمعہ قائم ہو اور اس میں روزمرہ کے مسائل اور سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی لحاظ سے ملک کی ضرورتوں کے مسائل بیان کئے جائیں۔
سال میں دو عید ہے جس میں مسلمان اکھٹا ہوتے ہیں اور نماز عید کے دو خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا اور محمد (ص) و آل محمد (ع) پر درورد و سلام کے بعد سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی جہات اور کلی طور پر ملک اور علاقہ کی ضرورتوں پر گفتگو ہوتی ہے اور اس طرح سے خطباء لوگوں کو مسائل سے باخبر کرتے ہیں۔
اس سب سے بالاتر حج کے مراسم میں سال میں ایک بار اجتماع کرتے ہیں اور اس اجتماع میں تمام اسلامی ممالک سے لوگ آتے ہیں۔ لہذا وہاں پر حج کے تمام مواقف بالخصوص منا، مکہ اور رسولخدا (ص) کے حرم میں اسلام کے مسائل بیان کریں، اسلام کا صحیح تعارف کرائیں، اسلام کے قوانین کو لوگوں تک پہونچائیں اور اسلام کی حقانیت اور انسان کی بھلائی کے مذہب کی صحیح طور پر وضاحت کریں، اس کی خوبیوں کو لوگوں کے اذہان سے قریب کرکے بیان کریں تا کہ لوگ دیدہ اور دانستہ طور پر اسلامی کے شیدائی اور فدائی ہوں۔
اسلامی تحقیقی طور پر انھیں سمجھ میں آئے، نیز حج کے موقع پر اس عظیم اجتماع میںاسلامی ممالک کے حالات کا جائزہ لیا جائے، ان کی کمی اور زیادتی اور اسلام سے قربت اور دوری کو بتایا جائے، لیکن افسوس صد افسوس کہ ان مسائل سے غفلت برتی گئی اور اس طرح کے عالمی اجتماع سے استفادہ نہیں ہوتا۔ جبکہ اسلام کے تعارف اور اس کی شناخت کرانے کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہے۔ اسلامی کیا ہے اور کیا چاہتا ہے اور اسلام کس کا دین ہے یہ بتانے کی ضرورت ہے اس کے مفاہیم کو سمجھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے بہترین موقع کہیں اور کبھی نہیں آتا۔ یہاں دنیا بھر کے مسلمان حج اور دینی عبادت کرنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ گھر بار، اہل و عیال کو چھوڑ کر آنے والے مسلمان صرف حکم الہی کی بجا آوری کے لئے آتے ہیں، ان کا ذہن کافی حد تک بہت ساری غافل کرنے والی چیزوں سے خالی ہوتا هے اور کسی بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
دور رواز کا سفر کرکے لوگ آتے ضرور ہیں، ہزاروں مصائب و آلام برداشت کرکے حج کرنے کی غرض سے آتے ہیں لیکن افسوس کہ ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتے ہیں۔ نماز جمعہ اور نماز عید میں اجتماع ہوتا ہے، لوگ ٹوٹ کر آتے ہیں لیکن جیسا ہونا چاہیئے اس طرح لوگوں کے درمیان وحدت اور یکجہتی نہیں ہوتی، اسلام نے لوگوں کو ان اجتماعات میں عظیم مقاصد کے لئے دعوت دی ہے۔
جمعہ کے دن کی نماز میں دو سورہ «جمعہ» اور «منافقون» حضرت محمد (ص) کی بعثت اور اس کے راز کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر (ص) لوگوں کا تزکیہ کرنے، انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ جابر امام محمد باقر (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: جب شوال کا پہلا دن آتا ہے تو منادی حق آواز دیتا ہے۔ اے مومنو! اپنے انعامات حاصل کرنے کے لئے صبح کرو، اس کے بعد امام باقر (ع) نے فرمایا: اے جابر! خدا کا انعام دنیاوی بادشاہوں کے انعامات کی طرح نہیں ہے۔
معصوم (ع) عید کی تعریف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عید کس کی ہے۔ فرماتے ہیں: حقیقی عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لئے ہیں بلکہ حقیقی عید اس کی ہے جس نے خدا کے وعدہ عذاب سے بچنے کا لباس پہن لیا ہو۔ اس دن صدقہ دینا، بے چارہ، بے نوا، بے سہارا، فقراء و مساکین کی امداد کرے، اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم کرے، یتیموں کی دلجوئی کرے اور علمائے ربانی کی زیارت کرے جن کی زیارت اور ملاقات کی ائمہ معصومین (ع) نے تاکید کی ہے۔ اس دن دل کو کینہ و کدورت سے صاف کرے، ایک دوسرے سے الفت و محبت پیدا کرے، ملے جلے، مبارکباد دے، اس دن اپنے گھروں میں اچھے اور عمدہ کھانوں کا اہتمام کرے خود بھی کھائے اور اپنے برادران دینی کو بھی کھلائے۔ خداوند عالم اپنے ذمہ دار اور پابند بندوں کے تمام اعمال قبول فرمائے اور اس دن کو ان کے لئے سعید و مبارک قرار دے۔
آمین یا رب العالمین۔