عید کے معنی اور تاریخی اہمیت
عید:لفظ عید عود سے بنا ہے۔ جس کے معنی لوٹنا اور بار بار آنے کے ہیں چونکہ یہ پر مسرت دن ہر بار لوٹ کر آتا ہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیام لیکر آتا ہے اس لیے یہ دن عید کا دن کہلاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ: حضرت عیسیٰ بن مریم نے عر ض کیا کہ اے اللہ ہم سب کو پالنے والے ہم پر خوان اتار آسمان سے کہ وہ دن ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لیے عید بنے اور ہو جائے ایک نشانی تیر ی طرف سے اور رزق دے ہمیں اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
اس آیہ مبارکہ میں عید سے مراد مسرت و انسباط کا دن ہے۔ جب آفتاب رسالت نے ریگستان عرب کے دشت و جبل کو منور کیا اور ذرہ ذرہ توحید کے نور سے جگمگا اٹھا تو اس کے کچھ عرصے بعد ہی ہجرت کا واقعہ پیش آیا اور امام الانبیاء مدینہ منورہ تشریف لے آئے یہاں پر آپ نے دیکھا کہ اہل مدینہ دو تہوار مناتے ہیں۔ جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے ہیں۔ حضور اکرم (ص) نے فرمایا کہ ان دنوں کی حقیقت کیا ہے اور ان کا کیا تاریخی پس منظر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ:ہم ان دنوں کو مدت قدیم سے بس اسی طرح مناتے چلے آ رہے ہیں اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر کر دیے ہیں۔ یعنی عید الفطر اور عید الاضحی گویا یہ مبارک روز سعید یکم شوال 2 ہجری سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ہجرت مبارکہ تاریخ اسلام کا وہ تاریخ ساز اہم اور انقلاب انگیز موڑ ہے، جس سے اسلامی تاریخ اور سن ہجری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سن 2 ہجری میں غزوہ بدر کی فتح و نصرت کے بعد تاجدار دو جہاں نے قدسیوں کے جھرمٹ میں تکبیر و تہلیل کی دل آویز صدائوں کی گونج میں شہر مدینہ سے باہر عید گاہ میدان میں جا کر نماز ادا کی۔
خداوند سے انعام و اکرام ملنے والا دن
عید الفطر روزے داروں کے لیے انعام و عطا کا سالانہ تہوار ہے ۔ جو رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو مذہبی جوش و خروش کیساتھ منایا جاتا ہے۔
عید الفطر کو روزے داروں کے لیے مسرت و رحمت کا پیامبر بنا دیا گیا ہے اور اسے رمضان المبارک میں کی گئی عبادت و ریاضت ، اطاعت و بندگی، تسبیح و تہلیل ، حمد و ثناء، درود و سلام اور سحر و افطار کے اجر و ثواب انعام و اکرام کیساتھ نزول قرآن کی برکتوں اور عظمتوں سے عبارت کیا گیا ہے۔
ان خوش قسمت اور با مراد لوگوں کے لیے جنہوں نے رمضان المبارک کی پر نور ساعتوں سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا، جنہوں نے ان لمحات کو غنیمت جانا اور دل کے ویران اور تنگ و تاریک گوشوں کو عرفان و ایقان کی کرنو ں سے منور کیا۔ جن کی جبینوں میں سجدے مچلتے رہے ۔ جنہوں نے رات اپنے پہلوؤں کو بستروں سے جدا رکھا اور معبود کا قرب پانے کے لیے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے بے قرار اور بے چین رہے۔ جنہوں نے اپنے دلوں کو لمحہ بھر کے لیے یاد الہٰی اور زبان کو ذکر الہٰی سے غافل نہ ہونے دیا۔ جن کی آنکھوں سے ندامت اور پشیمانی کے آنسو سیل رواں بن کر بہتے رہے۔ جنہوں نے قرآن مجید کے نور سے اپنی روح کے مہیب اندھیروں کو اجالا بخشا ،جنہوں نے اذان و اقامت کی روح پرور صدائوں سے اپنے خیالات اور تخیلات کو پاکیزگی بخشی۔ جنہوں نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔ جو رمضان المبارک کا پہلا عشرہ شروع ہوتے ہی اس کی بارگاہ میں اشکوں کے چراغوں سے اجالا کر کے ہاتھ اٹھا اٹھا کر اس کی رحمت کو پکارنے لگے۔
پھر دوسرا عشرہ آیا تو مغفرت کی جستجو اور طلب میں سر گرداں ہو گئے۔ کبھی غفلتوں اور سر کشیوں کے سمندر میں ڈولتی ہوئی اپنی کشتی حیات کو دیکھتے تو کبھی اس کے بے پایان کرم کی وسعتوں کو دیکھتے اور اس باران رحمت کو دیکھتے جو سب کو یکساں سیراب کرتی ہے۔
پھر تیسرا عشرہ آتے ہی جہنم سے آزادی کا پروانہ لینے کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے اور جب رمضان المبارک لیل و نہار کی ان مقدس ساعتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر رخصت ہو جاتا ہے تو رب العزت کے یہ بندے اس کے محبوب کی سنت کو ادا کرتے ہوئے نماز عید کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر اس دن رب العالمین اپنے فرشتوں میں نماز عید کے اجتماعات میں موجود بندوں پر فخر فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے۔ جس نے اپنا کام پورا کر دیا فرشتے کہتے ہیں پروردگار اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسے پوری مزدوری دی جائے۔ پھر خداوند فرماتا ہے کہ مجھے اپنی عز ت و جلال کی قسم میں ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں میں انہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہ کروں گا۔ میرے بندو لوٹ جاؤ میں نے تم کو بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔