ابنا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ قرآنی حکم ہے کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ ظلم ان کا شیوہ ہے، ان کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہے۔ ہمیں یہود و نصاریٰ پر اعتماد نہیں کرناچاہیے، چند مسلمان ریاستوں نے غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات قایم کئے ہوئے ہیں جو انتہائی افسوسناک امر ہے، بعض ممالک میں اسرائیلی سفارتخانے موجود ہیں، شام ، یمن ، عراق اور افغانستان کی جنگیں گریٹر مڈل ایسٹ بنانے کی جنگ ہے جس کے درپردہ امریکہ اور اسرائیل کی سازش کارفرما ہے۔
نیل و فرات کی باتیں کرنے والا اسرائیل آج دیواریں کھڑی کرکے دفاع پر مجبور ہے، حزب اللہ کی اسرائیل مخالف جنگوں کے بعد غاصب صہیونی ریاست کی ہیبت قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ یہ ہمت اور حوصلہ امام خمینی نے امت مسلمہ کو فراہم کیا، امت مسلمہ سے کہا کہ پوری امت ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے نام پر منانے کی اپیل کی۔ اگر عوام اور رائے عامہ نہ ہوتی تو بہت سے مسلمان ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کرچکے ہوتے ، یہی رائے عامہ مسئلہ فلسطین کو دفن ہونے سے بچا رہی ہے، آج یہ مسئلہ انسانیت کا اہم مسئلہ بن چکا ہے۔
ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری ثاقب اکبر کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دو قومی نظریہ کی بات کرنا ایک غلط اقدام ہے، پاکستان کے دفتر خارجہ بانی پاکستان کی دی گئی پالیسی سے انحراف کرنے کی کوشش کی ہے اور اس مسئلے کے حل کے لئے دو قومی نظریہ کی بات کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی دی گئی پالیسی پر عمل کیا جائے، قائد اسرائیل کو ایک غاصب اور ناجائز ریاست سمجھتے تھے۔
پی ٹی آئی کی رہنما عابدہ راجہ کا کہنا تھا کہ فلسطین میں ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں تک کو معاف نہیں کیا جارہا، بکھرے ہوئے مسلمان صرف اپنے گھروں میں بیٹھ کر نوحہ کناں ہیں، دوقومی نظریہ کی بات کرنے والے فلسطین کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ آج ہمارے حکمران اپنے چند مفادات کی خاطر صہیونیوں کے مقابل گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ایک ہو جائیں اور ایک طاقت بن کو ظالم صہیونیوں کا مقابلہ کریں۔