حضرت امام خمینی (رح) کی ایک نمایاں ترین خصوصیت جسے ہم نے انقلاب کے بعد بہتر انداز میں زیادہ سے سمجھا ہے۔ آپ کی گشادہ دلی تھی۔ بارہا پیش آیا ہے کہ آپ کے اطراف والے آپ کے پاس گئے اور کچھ لوگوں پر تنقید اور بدگوئی شروع کردی تو آپ کافی ناراض ہوتے اور فرماتے:
تم لوگ کیوں غیبت کررہے ہو اور لوگوں کی حرمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے؟
کم از کم میں نے خود اس گشادہ دلی اور اس بلند صفت کا دوبار مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ شیراز یا اصفہان کے کسی ایک عالم نے آپ کی برائی کی ہے۔ لیکن آپ نے ان کے جواب میں کہا: برائی کرنے دو، میں کون ہوں اور کیا ہوں کہ میری برائی کئے جانے پر تم لوگ اتنا پریشان اور رنجیدہ ہوگئے اور اس شخص کی غیبت اور اس پر تنقید پر مجبور ہوتے ہو؟
امام (رح) کا تنقید سے ناراض ہونا تو دور بلکہ صاف گوئی اور طراوت سے خوش ہوتے تھے اور اس کے مقابلہ میں خوشامد اور چاپلوسی سے بیزار تھے اور جن لوگوں کے ہاتھوں سے چاپلوسی اور خوشامد کی بو آتی تھی ان سے سخت رویہ اختیار کرتے اور ہر تنقید اور اعتراض کا خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیتے، سامنے والے کی باتوں کو ہنستے اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ امام کی خصوصیت یہ تھی کہ ہر گروہ، پارٹی اور دھڑے کی حرمت کا پاس رکھتے اور سب کا احترام کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس الہی حرمت کو پامال کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے، امام خمینی (رح) کی رفتار و گفتار میں زندگی کے ہر شعبہ میں عملی درس تھا اور آپ نے انبیاء، اولیائے الہی اور دینی رہبروں اور مکتب اسلام کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہناتے تھے۔
خاطرات سید حسین موسوی، ص 94۔