فردی اور عوامی حکومت میں ایک فرق یہ ہے کہ عوامی حکومت میں قانون کی حاکمیت ہوتی ہے لیکن فردی حکومت میں شخص حاکم کی رائے حاکم ہوتی ہے۔ عوامی حکومت کی بنیاد عمل ہے اور استبدادی حکومت میں رائے اور نظر حاکم ہوتا ہے۔
امام خمینی (رح) قانون کی حاکمیت کو خاص اہمیت دیتے ہیں اسی لئے آپ قوانین کو پامال کرنے والی حکومتوں کو مردود جانتے تھے۔ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
ہم ایک ایسی حکومت بنانا چاہتے ہیں کہ اس میں قانون کا پاس و لحاظ رکھا جائے۔ ایک قانونی حکومت ہو کیونکہ میں اس حکومت سے بیزار اور اس کا مخالف ہوں جو تمام انسانی قوانین اور دنیا کے سارے اصول و ضوابط کو پامال کرتی ہے۔ میں اسلامی حکومت کی اس طرح ایک حکومت کا خواہاں ہوں تاکہ قانون کے علاوہ کوئی اور چیز حاکم نہ ہو صرف اور صرف قانون حاکم ہو اور وہ عدل و انصاف کا قانون ہے۔ ایک صحیح اور انسانی اقدار کا پاسبان قانون جو انسان کی ترقی کا ضامن اور اس کی خیر و سعادت کا باعث ہو۔
قانون کی قدر و منزلت بناتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہر چیز پر مقدم قانون ہو اور ملک کے سارے لوگ قانون کی پاسبانی کریں یعنی اگر قانون خود اس شخص کے خلاف کوئی حکم کرے تو وہ اس کے سامنے تسلیم ہو اور خندہ پیشانی کے ساتھ اس کا استقبال کرے۔ اس وقت ملک قانون کا ملک کہلائے گا۔
پورے دس کے عرصہ میں کوئی ایسا موقع نہیں ملا کہ امام نے قانون سے ہٹ کر کوئی حکم صادر فرمایا ہو۔ اور اگر کوئی ایسی جگہ نظر بھی آئے گی تو امام اس سے بہتر کوئی چیز پیش کرتے تھے تا کہ لوگ اس سے قانع اور مطمئن ہو سکیں۔ جہاں کہیں بھی ایسا کچھ دکھائے دے گا امام قانون پرست ایک مکمل نظریہ کے حامل فرد نظر آئیں گے۔
امام کے نزدیک عدالت و برابری سرفہرست امر رہاہے لیکن ڈیموکریسی کے بعض طرفدار کہتے ہے کہ "برابری مطلوبہ ڈیموکریسی کا کمال" ہے۔ یعنی رائے دینے، اعتراض کرنے، عمومی عہدوں پر فائز ہونے کا حق رکھتے ہیں اور اس میں ذات پات، رنگ و نسل، علاقائی امتیاز نہیں ہے ۔ لیکن امام خمینی (رح) انسانوں کے درمیان مساوات اور برابری کو قبول کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی فضیلت اور برتری تقوی میں جانتے ہیں ۔ امام کی نظر میں عالم اور جاہل، مسئول اور غیر مسئول اور تمام افراد کے درمیان کسی امتیاز کے قائل نہیں اور افراد کے درمیان تفریق اور تبعیض کے قائل نہیں ہیں۔
امام خمینی (رح) افراد کے ووٹ دینے اور برابری کے بارے میں فرماتے ہیں:
انتخاب کسی ایک پارٹی، گروہ، فرد، عالم اور غیر عالم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ سب کا حق ہے۔ لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ خود ان کے ہاتھ میں ہے۔ اندیشہ اور بیان کے بارے میں فرماتے ہیں:
سارے لوگ اپنے عقائد اور نظریات کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں اور بیان، قلم اور عقیدہ کا اظہار کرنا سب کے لئے آزاد رہاہے۔
امام خمینی (رح)نظریہ کا اظہار کرنے کا حق اپنے مخالفین کو بھی دیتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ مخالفین اپنی مخالفت کا اظہار کرنے میں آزاد اور مختار ہیں نیز علمائے اعلام، شہروں اور قصبوں اور دیہات کے لوگ اور خود قوم کسی کو آزادی سلب کرنے کی اجازت نہ دیں۔
آپ عقیدہ اور فکر کی آزادی کسی خاص فرد اور طبقہ سے مخصوص نہیں جانتے تھے بلکہ آپ کا نظریہ تھا کہ قلم، بیان اور عقیدہ کے اظہار کی سب کو آزادی ہے۔ آپ سماجی بحث کے بارے میں کہتے ہیں:
اس تحریک اور اس اسلامی انقلاب کے حدود میں سارے لوگ آزاد ہیں جو لوگ کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ اپنی باتیں کہیں اور اگر کوئی فرقہ ہے تو وہ بھی اپنا بات کہے اپنے نظریہ کا اظہار کرے۔ اسلامی حکومت میں ہر فرد اپنے اپنے عقیدہ کا اظہار کرسکتی ہے۔
خلاصہ امام خمینی (رح) انسانوں کے حقوق اور فکر و نظر، عقیدہ اور رائے کی فطری حق کے قائل تھے اور فرماتے تھے ہماری حکومت میں فکر و نظر، تحریر و قلم اور بیان کی آزادی ہے لیکن سازش اور فساد کرنے کی آزادی نہیں ہے بلکہ انسانوں کی فلاح اور خیر و سعادت کے حدود میں ہر فرد کو آزادی حاصل ہے۔
امام خمینی (رح) مطبوعات، نشریات اور پارٹیوں کی اجتماع اور سارے لوگوں کے حق انتخاب کی آزادی کے قائل تھے لیکن انسانی اصول اور بشری اقدار کے تحفظ کے ساتھ نہ حیوانیت اور درندگی کا پیکر بن کر بے راہ روی اختیار کرے گی۔