پھول سی دھرتی پر قابض تھے
ظالم، جابر، آمر لوگ
جن کی سوچیں، اندھی سوچیں
جن کی جذبے، گونگے جذبے
پہلو میں تھے دل پتھر کے
جو ڈاکو تھے ــــــــ
وہ رہبر تھے
گلشن گلشن ویرانی تھی ـــــــــــ
بازاروں میں چُپ کے ڈیرے
دل کے اندر خوف اُگاتھا
جام و صہبا کے سنگم پر
عزت داؤ پہ لگ جاتی تھی
چاند سی اس دھرتی پہ ہم نے
ظلم کے جھکڑ چلتے دیکھے
سیم و زر کے شیدائی نے
خون کی ایسی ہولی کھیلی
شہروں میں کہرام مچا تھا
قہر کا طوفاں کانپ اُٹھا تھا
اُمیدوں کے چورا ہے پر
تاریکی میں مشعل تھامے ہر کوئی آگے بڑھتا آیا
اَبرِ رحمت کُھل کر برسا
دور خزاں کا پیچھے بھاگا
جنتا کی پھر قسمت جاگی
مستانوں کے نعرے گونجے
تخت بھی ٹوٹے
تارج بھی اُچھلے
جبر کی سب زنجیریں ٹوٹیں
امن و اماں کے پرچم تھامے
چاند سے چہرے ناچ رہے تھے
ایوانوں میں رہنے والے
دل میں کینہ رکھنے والے
میٹھی نیندیں سونے والے
سانپ کی صورت ڈسنے والے
ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے
ریگِ صحرا پھانک رہے تھے
ظلم جو حد سے بڑھ جاتا ہے
مظلوموں کا بچہ بچہ
آزادی پانے کی خاطر
سولی پر بھی چڑھ جاتا ہے
ہر ظالم کا اِک انجام
ہو فرعون کہ شاہِ فارس
بے آواز عصائے قدرت
کردے سب کا کام تمام