سحر بدوش ستارے سے جھلملاتے ہیں / اُفق کے پار ابھی ظلمتیں سُلگتی ہیں
زمین پہ دانۀ تخلیق مُسکراتا ہے / ہوا کے شور میں دریا سخن سناتا ہے
سفر کا باب کُھلا وسعتیں مچلتی ہیں / بشر کی آرزوئیں کروٹیں بدلتی ہیں
صدی کی آنکھ کُھلی آگہی گُلاب ہوئی / چٹان ریگ ہوئی، ریگ بھی سراب ہوئی
تمام نقش ہوا، کارواں روانہ ہوا / طناب وقت میں پوشیدہ اک زمانہ ہوا
لہو کی رنگ سے تزئین ماہتاب ہوئی / یہ ماہ و سال کا گرداب اک فسانہ ہوا
نئی زمیں ہے، نیا آسماں نیا ایراں / نیا جہاں ہے نئی زندگی نیا امکاں
جڑی ہیں چیونٹیاں لفظوں کی اک قطار بنی / قطار فہم ہے یہ فہمِ جاودانہ ہوا
شعور غازۀ تاریخ، عنصرِ تحریر / مہک گئی مری یادداشت پھر بہارِ بنی
زماں ہے اس کا اُجالا، مکاں پرانا ہوا / اِک اِنقلابِ زماں، زیست کا بہانہ ہوا
امامِ وقت درخشاں مثال ماہِ تمام / ہے اس کے نور سے دنیائے عصر گُل اندام
امامِ وقت خلیجیں تمام کر دے گا / جو زندگی نے دیے ہیں وہ زخم بھر دے گا