سنبھل گیا ہے بشر، انقلاب زندہ باد / سنور گئی ہے نظر، انقلاب زندہ باد
بروئے کار ہے احساس حق پرستی کا / کیا ہے فکر نے قائم وقار ہستی کا
بدل گیا ہے سراسر مزاجِ ایرانی / عمامہ سر پہ ہے، ٹھوکر میں تاجِ ایرانی
جمی ہے دین کے احکام پر نظر سب کی / ہوئی ہے شاملِ احوال مَرحمت رب کی
ہوا ہے ختم، جو تھا اقتدار دُنیا کا / نہ آئے لب پہ سخن بار بار دنیا کا
مگر یہ طرزِ عمل زیست سے فرار نہیں / وہ بے عمل ہے جسے اِس اعتبار نہیں
خلافِ دین و دیانت ہے ترک دنیا کا / یہی نظام ہے اِمروز اور فردا کا
رہِ حیات میں دامن بچا بچا کے چلو / بصد خلوص، بصد عزم سر جُھکا کے چلو
سبق ملا ہے یہی انقلابِ ایراں سے / نہیں ہے کوئی بھی منزل بعید انساں سے
اِس انقلاب نے پوری فضا بدل ڈالی / ہر ایک بات، ہر اک التجا دل ڈالی
سبھی کو خدمتِ انسانیت کا شوق ہوا / پسندِ خاطرِ حق زندگی کا ذوق ہوا
اِس انقلاب میں توفیقِ جاں ہے پوشیدہ / ہر ایک شان میں امن و اماں ہے پوشیدہ
پُکاردل کی ہے اپنا احتساب کرو / غرور و شِرک و تعدّی سے اجتناب کرو
ظفر، یہ عزمِ خُمینی کی پیش بندی ہے / نظر کے سامنے ایمان کی بلندی ہے