یہاں سوال یہ اٹھتا ہےکہ مرد بھی موجود تھے، ایک مثال مرد کی دے دی ہوتی اور ایک مثال عورت کی دی ہوتی! لیکن نہیں...
جب دنیا کے فکری میدان پر نظر دوڑائی جاتی ہے اور پھر اسلامی نقطہ نگاہ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو صاف صاف یہ محسوس ہوتا ہےکہ انسانی معاشرہ اسی وقت مرد و زن کے رابطے کے سلسلے میں مطلوبہ منزل اور نہج پر پہنچ سکتا ہے جب اسلامی نظریات کو بغیر کسی کمی و بیشی کے اور بغیر کسی افراط و تفریط کے سمجھا اور درک کیا جائے اور انہیں پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت مادہ پرست تہذیبوں میں عورت کے سلسلے میں جو طرز عمل اختیار کیا گيا ہے اور جو سلسلہ چل رہا ہے وہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے اور وہ نہ عورت کے مفاد اور حق میں ہے نہ معاشرے کے فائدے میں۔
اسلام کی خواہش ہےکہ عورتوں کا فکری، علمی، سیاسی، سماجی اور سب سے بڑھ کر روحانی و معنوی نشو نما اپنی منزل کمال پر پہنچ جائے اور ان کا وجود انسانی معاشرے اور کنبے کےلئے ایک اہم رکن کی حیثیت سے، آخری حد تک ثمر بخش اور مفید ثابت ہو۔ تمام اسلامی تعلیمات منجملہ مسئلہ حجاب کی بنیاد یہی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی جب اچھے اور برے انسانوں کی مثال دینا چاہتا ہے تو دونوں کے سلسلے میں عورت کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک مثال زوجہ فرعون کی ہے " ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرئۃ فرعون " اس کے مقابلے میں برے، نگوں بخت، منحرف اور غلط سمت میں بڑھنے والے انسان کی مثال کے طور پر حضرت نوح (ع) اور حضرت لوط (ع) کی ازواج کو پیش کرتا ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہےکہ مرد بھی موجود تھے، ایک مثال مرد کی دے دی ہوتی اور ایک مثال عورت کی دی ہوتی! لیکن نہیں، پورے قرآن میں جب بھی ارشاد ہوتا ہےکہ " ضرب اللہ للذین آمنوا " یا " ضرب اللہ للذین کفروا " تو دونوں کی مثال عورتوں کے ذریعے پیش کی جاتی ہے۔
عورت سے متعلق اسلام کا طرز سلوک
عورت کےساتھ اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خیر اندیشانہ، دانشمندانہ اور توقیر آمیز ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کے حق میں ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے میں اسی طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقیقت پسندانہ اور حقیقی و بنیادی ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختیار کرتا ہے، یعنی کسی سے بھی قوت و توانائی سے زیادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں رکھتا۔ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو سمجھنے کےلئے اس کا تین زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
اول: ایک انسان ہونے کی حیثیت سے روحانی و معنوی کمالات کی راہ میں اس کا کردار؛ اس زاویے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہیں، بہت سی عظیم اور نمایاں کردار کی حامل خواتین بھی گزری ہیں۔
دوئم: سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی سرگرمیاں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کےلئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دےکر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ درحقیقت حکم خدا کےخلاف عمل کر رہا ہے۔
عورتیں، جہاں تک ان کی ضروریات و احتیاج کا تقاضا ہو اور جسمانی توانائی جس حد تک اجازت دے، سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو وہ سیاسی و معاشی و سماجی امور انجام دیں، شریعت اسلامی میں اس کی ہرگز منافی نہیں ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہےکہ:
" المرئۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ " یعنی عورت پھول کی مانند ہے اور قہرمان خدمتگار نہیں۔
آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: عورتیں تمہارے گھروں میں لطیف پھول کی مانند ہیں ان کےساتھ بڑی ظرافت اور توجہ سے پیش آؤ۔ عورت آپ کی خادمہ نہیں ہےکہ آپ سخت کام اس کے سر مڑھ دیں۔
اسلام نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جس کو اساس بناکر ہم عورت کو معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیں لیکن دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہےکہ عورت کو محنت شاقہ کی متقاضی سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں لگا دیا جائے۔ اسلام کا نظریہ اعتدال پسندانہ ہے۔
سوئم: عورت کو خاندان اور کنبے کی ایک رکن کی حیثیت سے دیکھنا؛ یہ سب سے اہم ہے۔ اسلام میں مرد کو یہ اجازت نہیں ہےکہ عورت سے جبر و اکراہ کا برتاؤ کرے اور اس پر کوئی چیز مسلط کردے۔ خاندان کے اندر مرد کےلئے محدود حقوق رکھے گئے ہیں جو درحقیقت بڑی حکمت آمیز بات ہے۔ اسی طرح عورت کےلئے بھی خاندان کے اندر کچھ حقوق رکھے گئے ہیں اور ان میں بھی بڑی مصلحت اندیشی پوشیدہ ہے۔
مرد و زن دونوں کے اپنے مخصوص جذبات، مزاج، اخلاق اور خواہشات ہیں۔ وہ دونوں اگر اپنے اپنے جذبات اور خواہشات کے مطابق صحیح طور پر عمل کریں تو گھر میں بڑا اچھا ہم آہنگ اور ایک دوسرے کےلئے سازگار جوڑا وجود میں آ جائےگا۔ اگر مرد زیادتی کرتا ہے تو توازن بگڑ جاتا ہے، اسی طرح عورت کوئی زیادتی کرے تو اس سے بھی توازن ختم ہو جاتا ہے۔
یہ دونوں صنفیں اگر ان حدود اور معیاروں کی پابندی کرتے ہوئے جس کا تعین اسلام نے کیا ہے ایک ساتھ زندگی بسر کریں تو ایک مضبوط، مہربان، با برکت اور انتہائی کارآمد کنبہ معرض وجود میں آئےگا۔
اسلام میں یہ تمام معنوی و روحانی مقامات اور اعلی انسانی درجات مرد اور عورت کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے عورتیں بھی مردوں کے برابر ہیں۔ جو بھی اللہ کےلئے کام کرےگا "من ذکر او انثی" خواہ وہ مرد ہو کہ عورت "فلنحیینہ حیاتا طیبۃ" ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔
اسلام نے بعض مقامات پر عورتوں کو مردوں پر ترجیح تک دی ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اس سوال کے جواب میں کہ "من ابر" میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیکی کروں؟ فرمایا ہےکہ "امک" یعنی اپنی ماں کےساتھ؛ آپ نے دوبارہ اس کی تکرار کی اور تیسری بار بھی یہی جملہ دہرایا۔
جب پوچھنے والے نے چوتھی دفعہ یہی سوال کیا، تب آپ نے فرمایا کہ "اباک" یعنی اپنے باپ کے ساتھ؛ بنابریں، خاندان میں بچوں پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے بچوں کے فرائض بھی زیادہ ہیں۔ یہ عدل الہی کا تقاضا ہے۔ جس کی زحمتیں زیادہ ہیں اس کا حق بھی زیادہ ہے۔
اسلام کی نظر میں جنس یعنی مرد یا عورت ہونا موضوع بحث نہیں بلکہ ارتقاء انسانی پر گفتگو کی گئی ہے، اخلاق انسانی کو موضوع گفتگو بنایا گيا ہے، صلاحیتوں کو نکھارنے کی بات کی گئی ہے، ان فرائض کی بات کی گئی ہے جن کا تعلق کسی بھی جنس سے ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کےلئے مزاج سے آشنائی ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کے مزاج کو بخوبی پہچانتا ہے۔ اسلام کی نظر میں سب سے اہم ہے توازن کا برقرار رہنا، یعنی انسانوں بشمول مرد و زن، کے درمیان عدل و انصاف کی مکمل پابندی۔ حقوق کی برابری موضوع گفتگو ہے۔ البتہ یہ ممکن ہےکہ بعض مقامات پر عورتوں اور مردوں کے سلسلے میں احکام مختلف ہوں۔ بالکل اسی طرح، جس طرح عورت اور مرد کے مزاج بعض خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں مرد اور عورت سے متعلق زیادہ سے زیادہ حقائق فطری خصائل اور طینت اور نفسیات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اسلامی معاشرہ اور عورت
اسلامی جمہوریہ ایران میں عورت سے توقع یہ ہوتی ہےکہ وہ عالمہ ہو، سیاسی شعور رکھتی ہو، سماجی سرگرمیاں انجام دے، تمام شعبوں میں سرگرم عمل ہو۔ گھر میں مالکہ کا رول ادا کرے، شوہر اور بچوں کی نگہداشت اور اولاد کی تربیت کا ذمہ سنبھالے۔ گھر کے باہر عفت و طہارت و پاکدامنی کا مظہر ہو۔ اگر یہ ہدف پورا کرنا ہے تو اس کی اولیں شرط حجاب ہے۔ حجاب کے بغیر عورت وہ بے فکری اور اطمینان خاطر حاصل نہیں کر سکتی جس کے ذریعے وہ ان منزلوں کو طے کر سکے۔
اسلامی معاشرے میں اور مسلمانوں کی زندگی کے اصلی بہاؤ میں مسلمان عورت کی خاص حرمت و وقار ہے اور اس کا مظہر حجاب ہے۔ جو خاتون، حجاب میں ملبوس رہتی ہے، اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں بھی وہ عورتیں زیادہ معزز اور قابل احترام ہوتی تھیں جو با حجاب رہتی تھیں۔ حجاب وقار کی علامت ہے۔ اسلام تمام عورتوں کےلئے اسی حرمت و عزت کا خواہاں ہے۔
خواتین کےلئے اسوہ حسنہ
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا چھے سات سال کی تھیں کہ شعب ابو طالب کا مرحلہ در پیش ہوا۔ اس عرصے میں پیغمبر اسلام (ص) کی ذمہ داری صرف لوگوں کی ہدایت و رہنمائی نہیں بلکہ انہیں سختیاں جھیلنے والے ان افراد کے سامنے بھی اپنے مشن کا دفاع کرنا تھا۔ ان دنوں جب پیغمبر اسلام (ص) انتہائی سخت حالات سے دوچار تھے، حضرت ابو طالب (ع) اور حضرت خدیجہ کبری(س) جو پیغمبر اسلام (ص) کی یاور و مددگار تھیں، ایک ہفتے کے اندر دونوں دنیا سے رخصت ہوگئے! پیغمبر بالکل بے سہارا اور تنہا ہوگئے؛ اس دوران، فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے ایک مشیر اور ایک ماں کا کردار ادا کیا پیغمبر اسلام (ص) کےلئے لہذا حضرت فرمایا: "ام ابیھا" اپنے والد کی ماں ہیں۔
کیا ایک نوجوان لڑکی کےلئے یہ چیز نمونہ عمل اور درس نہیں ہےکہ وہ اپنے ارد گرد کے مسائل کے تعلق سے جلد ہی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے، اپنے وجود میں پنہاں جوش و نشاط کے اس خزانے کو بروئے کار لاتے ہوئے باپ کے چہرے سے جو اس وقت غالبا پچاس سال کا ہوچکا ہے اور بڑھاپے کی سمت گامزن ہے، غم و غصے کے غبار کو جھاڑے، یہ ایک نوجوان لڑکی کےلئے کیا بہترین نمونہ نہیں ہے؟
دوسرا نمونہ ہے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض کی ادائیگی کا ہے۔ آپ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو دیکھئےکہ کس انداز سے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں۔
آپ غور کیجئےکہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا گھر میں موجود ہیں اور آپ کے شوہر مسلسل محاذ جنگ سنبھالے ہوئے ہیں، گھر کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے، جبکہ آپ، قائد ملت کی دختر گرامی اور پیغمبر کی لخت جگر ہیں اور آپ کے اندر ایک احساس ذمہ داری اور فرض شناسی بھی موجود ہے۔ بےحد مضبوط اعصاب اور قوی جذبات کی ضرورت ہےکہ انسان اپنے شوہر کو آمادہ کرے، اس کے ذہن و دل کو گھر کے مسائل و مشکلات اور بال بچوں کی فکر سے آزاد اور مطمئن رکھے اور بچوں کی ایسی مثالی تربیت کرے جیسی صدیقہ طاہرہ (س) نے کی۔ اس انداز سے گھر چلایا، اس انداز سے شوہر کے تئیں اپنے فرائض ادا کئے اور اس انداز سے گھر کی مالکہ کا کردار ادا کیا کہ تاریخ میں پائيدار خاندانی زندگی کا محور قرار پائیں۔ کیا یہ نوجوان لڑکی، گھریلو عورت یا گھریلو زندگی شروع کرنے جا رہی خاتون کےلئے آپ اسوہ حسنہ نہیں ہیں؟
موصولہ تحریر، تلخیص کے ساتھ