عراق و ایران کی جنگ کے ابتدائی دنوں میں دشمن تمام سرحدی علاقہ پر مسلط ہوا یہاں تک شہر اہواز اور دزفول کی دیوار تک پہنچ گیا؛ خرمشہر اور آبادان مکمل طور پر خطرے میں تھا۔
ایک دن حضرات میں سے ایک نے مجھ سے کہا: آقا ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ایک طرف سے آپ کچھ فرماتے ہیں اور دوسری طرف سے بنی صدر جو امام کی خدمت ہے اسی کےخلاف بولتا ہے!
مذکورہ جملات کے سنتے ہی میں نے تہران کیطرف جانے کا پکا ارادہ کیا، اس فکر کے ساتھ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اوپر کے ذمہ دار افراد بے خبر ہوں؟ لہٰذا مجھے اپنا فرض پورا کرنا ہوگا۔
جب میں حضرت امام کی زیارت کےلئے تیار ہوا، ایک جوان روحانی جس کا والد کردستان اور باختران کے علماء میں سے تھا، میرے ساتھ ہمراہ ہوا؛ اس روز حضرت امام کا منور چہرہ اس قدر نورانی، بشاش اور کھلا ہوا تھا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
جب میرے ساتھی نے اپنے والد کا نام بتایا، امام نے فرمایا: میرا سلام ان کو کہنا اور ان سے کہنا کہ ان شاءاللہ جلد ہی کردستان کا آپریشن مکمل ہوجائےگا۔ اس قسم کے کام بہت آسان ہے اور انجام پائےگا۔
جب میں نے امام کا اس قدر گھرا اطمینان دیکھا، آئندہ کے بارے میں مکمل طورپر امیدوار ہوا اور میں نے عرض کیا، خوزستان سے آیا ہوں، وہاں جنگ ہے؛ میرے ذہن میں کچھ تفصیلی باتیں تھیں اب ان کو بیان کرنا فضول اور بےجا سمجھتا ہوں۔
امام نے فرمایا: اپنے شہر لوٹیں اور اپنے کام میں مشغول ہوجائیں اور یہ یاد رکھیں کہ آپ لوگ ہی کامیاب ہیں۔
امام کے یہ جملات، پورے یقین کے ساتھ روشن مستقبل کی خبر دیتے تھے اور الحمدللہ ہم کامیاب ہوگئے۔
حوالہ: آستان امام خمینی(رح) ویب سائٹ