حضرت امیر (ع) کی بارگاه

امام خمینی (رح) کی حضرت علی (ع) سے عقیدت کی ایک جھلک

آپ ہر شب زیارت کے پابند تھے

امام خمینی (رح) کا وجود مبارک ایسا وجود ہے جسے ہم پہچان نہیں سکے ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے یہی ہے کہ آپ (رح) نجف اشرف میں ہوں اور حضرت امیر (ع) کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوں اور قدم بوسی کا شرف حاصل نہ کریں۔ چونکہ آپ جب تک نجف میں رہیں آپ کی زیارت کے پابند تھےاور عام طور پر مغربین کے بعد اور اپنے گھر میں جلسہ کرنے پہلے امام علی(ع) کی بارگاہ اقدس میں سلامی آپ کا طریقہ تھا۔ میری نظر میں گویا آپ جا کر حضرت امیر (ع) سے اجازت لینے تھے کہ کل درس دوں اور زندگی کو آگے بڑھادوں۔ یعنی آپ اس درجہ ولایت کے معتقد تھے کہ گویا آپ (ع) زندہ ہیں، حضرت امام صادق (ع) نے اپنے کسی چاہنے والے سے فرمایا:

"ہم تمہارےحق میں دعا کریں گے آئندہ اور آخر الزمان میں کچھ لوگ آئیں گے اور ہم پر اس درجہ عقیدہ اور عقیدت رکھیں گے کہ گویا ہم زندہ ان کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اس درجہ  با ادب ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ہم سے اجازت چاہیں گے۔"

امام خمینی (رح) کا وجود اس طرح کا تھا کہ آپ ہر شب زیارت کے پابند تھے۔ میں بھی حرم جاتا تھا تو دیکھتا تھا کہ آپ تشریف لا چکے ہیں اور حرم میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کبھی ہم آپ کے گھر سے ہی ساتھ بات کرتے ہوئے جاتے تھے۔ آپ کی اس درجہ پابندی کرنا آپ کے ولایت پر عقیدہ رکھنے کی عکاسی کرتا ہے اور آپ  خود کو ہر جہت سے ولایت شیفتہ جانتے تھے۔ امید کرتا ہوں کہ یہی طرز زندگی تمام عزیزوں کو بھی ہو۔

حضرت امیر المومنین (ع) کی شخصیت ایسی بے نظیر ذات ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی عقلیں آپ کے ادراک سے عاجز ہیں، یعنی امیر المومنین (ع) کے کمالات کا ادراک اور آپ کی ولائی شان کی معرفت سے عاجز ہیں۔

جب مقام بهت بلند ہوجاتا ہے تو ہماری عقلوں کی وہاں تک رسائی نہیں ہوتی۔یہ خدا کا بیان ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) سے خطاب کیا :

"اے علی! کسی نے مجھے نہیں پہچانا سوائے تمہارے اور خدا کے اور کسی نے خدا کو نہیں پہچانا سوائے میرے اور تمہارے۔"

گویا آپ کو پہچان نہیں سکتے۔ حضرت علی (ع) نے اپنے بہت سارے صفات اور کمالات کو ظاہر ہی نہیں کیا ہے، جیسا کہ رسول خدا (ص) نے جنگ کے موقع پر فرمایا ہے:

"اے علی ! میں تمہاری زیادہ خصوصیات کو بیان نہیں کرسکتا کیونکہ اگر بیان کردوں تو تمہاری خاک پا کو انکھوں کا سرمہ بنالیں گے۔ لیکن کیا کروں اگر بیان کردوں تو سن کر لوگوں کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ "

یہ بیان کرنے کے باوجود ایک فرقہ علی اللہی ہو ہی گیا۔ لہذا حضرت علی (ع) خود فرماتے ہیں:

میرے سلسلہ میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں: ایک دستہ چونکہ میرا دشمن ہوگیا اور دوسرا میرے بارے میں غلو کرنے لگا۔ "ہلک فیّ رجلان محب غال  و مبغض قال"

یعنی ان لوگوں نے مجھے عبد ہونے سے خارج کردیا اور کہا کہ علی خدا ہیں، پس با وجودیکہ حضرت (ع) کے بارے میں بہت کچھ بیان نہیں کیا گیا ہے، پھر بھی حضرت کے کمالات کو دیکھ کر لوگ گمراہی میں مبتلا ہوگئے خیال کرلیا کہ یہی خدا ہیں۔ بالکل وہی روایت ہے کہ حضرت نی فرمایا ہے:

" ابوذر اگر جاننا چاہو کہ سلمان کون ہیں تو یقینا کہتے کہ خدا سلمان کو قتل کرنے والے پر رحمت کرے " رحم الله قاتل سلمان" سلمان کون تھےکہ حضرت نے ان کے بارے میں اس طرح فرمایا ہے۔ آپ آخر تک پڑھیں جب بنا ہو کہ ہم کہیں کہ سلمان آپ کے مکتب کے شاگرد ہیں اور اس مقام اور مرتبہ پر فائز ہوں تو پھر ہم کجا اور حضرت امیر (ع) کجا۔

ای میل کریں