اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی اصولوں اور آئین کے مطابق، دنیا میں واحد ملک ہےکہ جو ستم رسیدہ انسانوں کے حقیقی آقا کے الٰہی، آئینی و قانونی حق حکمرانی پر ایمان رکھتا ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی ۳۹ویں سالگرہ کے موقع پر اس انقلاب کے حامی یقیناً انقلاب سے متعلق ایسے حقائق کی تلاش میں ہوں گے کہ جو ان سے پوشیدہ رہ گئے ہوں۔
اسلام ٹائمز کے مطابق، ماہنامہ منتظر سحر کےلئے قلمی ناموں سے جو مقالے لکھے، انہی میں سے ایک بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی پر تھا، جس کا عنوان "امام زمانہ کی عبوری حکومت کے بانی" رکھا تھا۔ حقیقتاً آج برسوں بعد جب انقلاب اسلامی ایران کے کارناموں پر سوچا تو یاد آیا کہ اس انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ اس نے دنیا کے ستم رسیدہ انسانوں کو، ایسے انسان کہ جو ایک نجات دہندہ کے منتظر تھے، یعنی پوری عالم انسانیت ہی کو امام زمانہ کی عبوری حکومت کے دور میں داخل کردیا تھا، یعنی عصر انتظار سے عصر ظہور کا سفر۔ بظاہر اس انقلاب نے ایران میں سیاسی نظام کو پلٹ کر رکھ دیا تھا، لیکن درحقیقت اس انقلاب نے پوری دنیا کی کایا پلٹ دی تھی۔ دیکھا جائے تو انقلاب نے منتظرین کا تذبذب ختم کر دیا۔
اس انقلاب نے ایران کے آئین میں واضح الفاظ میں لکھا کہ "ولی عصر کی غیبت میں" حکومت و رہبری کا نظام یوں ہوگا۔ ولی عصر یعنی امام مہدی (عج) یعنی منجی عالم بشریت، یعنی دنیا کے نجات دہندہ، یعنی دکھی انسانیت جس کا انتظار کر رہی ہے، وہ مسیحا! سوائے ایران کے دنیا کے کسی ملک کے آئین میں امام مہدی، مسیحا، عالم انسانیت کے نجات دہندہ کا تذکرہ شامل نہیں کیا گیا۔ البتہ انقلاب اسلامی نے ایران کو دنیا کے نقشے پر موجود ایک سو نوے سے زائد ممالک میں وہ یکتا و منفرد ملک بنا دیا کہ جس نے منجی عالم بشریت کے منتظرین کےلئے ایک نظیر قائم کر دی کہ کم از کم ایک ملک دنیا میں ایسا ہےکہ جو ستم رسیدہ انسانوں کے حقیقی آقا و مولا کے الٰہی، آئینی و قانونی حق حکمرانی پر ایمان رکھتا ہے۔
اس انقلاب سے پہلے دنیا کے ستم رسیدہ انسانوں کی اکثریت متذبذب اور بے عمل منتظرین پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اللہ تبارک تعالٰی کے جس ولی کامل، مرکزی و واقعی حجت کہ جس کا وعدہ آسمانی صحیفوں میں درج تھا، کہ جس کی پیشن گوئی خود پیامبر اعظم و صادق (ص) نے کی تھی اور جس پر نہ صرف سنی، شیعہ مسلمانوں کا بلکہ دیگر ادیان و مذاہب کا بھی ایمان تھا، اس عظیم الٰہی ہستی کے پردہ غیب میں ہونے کے دوران یہ ستم رسیدہ انسان نہ صرف ایک ریاست اور رہبر و قائد سے محروم تھے، بلکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھےکہ وہ اپنی ریاست میں اس عظیم ہستی کو رسمی طور مرکزیت مان لیں۔ ایران کے انقلاب اسلامی نے دنیا کے بے عمل اور متذبذب منتظرین کو خبردار کیا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بے عملی کی چادر تان لینا، مایوس ہو جانا، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس مرکزی اور واقعی الٰہی حجت کی عالمی حکومت کے ظہور کےلئے راہ ہموار کرنا ناگزیر ہے اور ایسا کرنا ایک قابل عمل کام ہے، یہ ناقابل عمل یا ناممکن نہیں ہے۔ یوں اس انقلاب نے منتظرین کو عصر انتظار سے عصر ظہور میں داخل کر دیا۔
ذرا غور سے اس حجت واقعی و مرکزی کے نائب یعنی بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی وصیت کا پہلا جملہ پڑھیں؛ ان کے مطابق:
" اس عظیم الشان اسلامی انقلاب کی جو لاکھوں ذی قدر انسانوں، ہزاروں زندہ و جاوید شہیدوں اور زندہ شہیدوں (یعنی جانبازوں) کی زحمتوں کا ثمرہ ہے اور دنیا کے کروڑوں مسلمانوں اور دنیا کے مستضعفین کی امیدوں کا مرکز ہے، اہمیت اس قدر زیادہ ہےکہ اس کا حق ادا کرنا زبان و قلم کے دائرے سے باہر ہے"۔
امام زمانہ کے اس عظیم نائب، عالمی سیاست کے بت شکن خمینی نے اسی وصیت نامے میں واضح طور پر فرمایا:
" آج بالخصوص ایرانی عوام اور بالعموم تمام مسلمانوں پر واجب ہےکہ اس امانت الٰہی کی، جس کا ایران نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے، اپنی توانائی کے بقدر حفاظت کریں اور اس کی بقا کی فکر کریں"۔
امام خمینی نے اس وصیت نامے کے پیش لفظ میں واضح کر دیا کہ ان کی سیاسی و الٰہی وصیت صرف ایرانیوں کےلئے نہیں:" بلکہ یہ تمام اسلامی قوموں اور دنیا کے ہر مذہب و ملت کے مظلوموں کےلئے ہے"۔
انہوں نے پیش لفظ میں انسانیت کے نجات دہندہ حضرت مہدی صاحب الزمان (عج) کا تذکرہ بھی کیا ہے:
" جو قادر مطلق کی قدرت سے زندہ اور ہمارے امور کے شاہد و نگراں ہیں"۔
یہ الفاظ انقلاب اسلامی کی اصل ماہیت کو آشکار کر رہے ہیں کہ یہ انقلاب محض ایران کا داخلی معاملہ نہیں بلکہ امام زمانہ اور مظلوموں سے متعلق بھی ہے اور اس کی بقا و حفاظت کی ذمے داری ایرانیوں کے ساتھ ساتھ، سارے مسلمانوں کی ہے!
قصہ مختصر یہ کہ انقلاب اسلامی ایران اور اس کے بانی نے اس انقلاب اور اس انقلابی نظریئے کو صرف ایران تک محدود نہیں سمجھا کیونکہ مسئلہ دنیا کے ستم رسیدہ و پابرہنہ انسانوں کی ظلم و ستم سے نجات کا ہے اور اس کےلئے دنیا کے کمزور، محروم و مظلوم انسانوں کو اگر کوئی ایک ریاست ڈھارس دینے کی پابند بنائی گئی ہے تو وہ ایران ہے، کیونکہ وہ نظریہ مہدویت کے پیروکار انقلابی مومنین کی آئینی و قانونی ریاست ہے۔ یہ ریاست محض آئینی تبدیلی و ولی عصر کے تذکرے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کے ارتقائی سفر کو طے کر رہی ہے کہ جو مدینۃ النبی (ص) کے تازہ ترین ورژن یعنی مدینۃ المھدی (عج) کی منزل تک پہنچےگا۔
اسلامی انقلاب ایران نے دنیا کو سماجی عادلانہ مساوات پر مبنی نیک انسانوں کا معاشرہ سے مانوس کر دیا ہے؛ یہ کوئی آسان کام نہ تھا جبکہ انقلابیوں کی راہ میں خار ہی خار بچھائے گئے ہیں۔
اس انقلاب کے عظیم کارناموں میں ایک یہ بھی ہےکہ اس نے دنیا کی ستم رسیدہ اور کمزور و مقروض اقوام کو خود انحصاری کی تعلیم دی ہے، اس نے خدا پر توکل اور خودی پر اعتماد کے ذریعے نہ صرف ایرانیوں کی عزت نفس و غیرت و حمیت ملی کو جلا بخشی ہے بلکہ لبنان و فلسطین کی جعلی ریاست اسرائیل سے آزادی کی قومی مزاحمتی تحریک کو بھی نئی زندگی عطا کی ہے۔
اس انقلاب کا بانی روح اللہ موسوی خمینی نے شہنشاہیت کے ظلم و تشدد کی شکار ملت ایران اور مسلمانان عالم و عرب اقوام کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دی اور انقلاب اسلامی ایران نے اسلام، امام اور امت پر مشتمل انقلابی مثلث کو جنم دیا، جس کے تحت نظام کفر جہانی کے بڑے بڑے بتوں یعنی عالمی سیاست کے لات و منات و عزیٰ و ھبل کو بت شکن خمینی نے سنت ابراہیمی ؑ میں توڑ کر دکھایا!
«وَ سَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوتُ وَ يَوْمَ يُبْعَثُ حَيّاً»