صدر ڈونلڈ ٹرمپ: داعش کی تشکیل میں امریکہ کا بنیادی کردار رہا ہے۔
حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بارے میں وضاحت دیتے ہوئے فرمایا ہے: "داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کی افغانستان منتقلی سے امریکہ کا مقصد خطے میں اپنی فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنا اور صہیونی رژیم کی قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے"۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے میں امریکی مفادات کو کلی اور جزوی سطح پر یعنی اسٹریٹجک میدان میں بھی اور ٹیکٹیکل میدان میں بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ بلاوجہ نہیں کہ بعض سیاسی ماہرین یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر خطے میں امریکہ کے عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت نہ ہوتی تو اب تک امریکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش جیسے اپنے پراکسی مہروں کے ذریعے پورے خطے پر تسلط پیدا کرچکا ہوتا۔
روس کی وزارت دفاع نے کئی بار ایسی ویڈیوز شائع کی ہیں جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہےکہ داعش کے زیر کنٹرول علاقوں سے بڑی تعداد میں آئل ٹینکرز شام کی سرحد عبور کرکے ترکی جا رہے ہیں۔
مزید برآں، امریکہ کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو ہلکے اور بھاری ہتھیار فراہم کئے جانے اور زخمی دہشت گرد عناصر کا اسرائیلی اسپتالوں میں علاج معالجہ کئے جانے کے بھی ثبوت موجود ہیں۔
اسی طرح حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی صدارتی مہم کے دوران ہیلری کلنٹن سے مناظرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو فاش کرنا کہ داعش کی تشکیل میں امریکہ کا بنیادی کردار رہا ہے بھی قابل غور ہے۔
ایسے حالات میں جب امریکی حکومت خطے پر اپنا تسلط اور قبضہ جمانے کی کوشش کر رہی تھی ایران اس میں آڑے آ گیا۔
جب داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر نے تہران میں ایران کی قومی اسمبلی اور انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی (رح) کے مزار کو دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا تو ایران نے اعلان کیا کہ آئندہ تین ماہ کے اندر اندر عراق سے داعش کا وجود ختم کردیا جائےگا؛ تین ماہ کے اندر ایسا ہی ہوا۔ لہذا ایران خطے میں مطلوبہ اہداف کے حصول میں امریکہ کے راستے میں بنیادی رکاوٹ بن چکا ہے۔ اسی حقیقت کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہےکہ امریکہ کیوں اس قدر ایران کےخلاف بولتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ داعش کی افغانستان منتقلی کس طرح اسرائیل کے تحفظ کو یقینی اور خطے میں امریکی موجودگی کا جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے؟
عراق اور شام میں داعش کی نابودی کے فوراً بعد ہی امریکی حکام نے داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کو افغانستان منتقل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی؛ اس لئےکہ امریکی حکام کی تمام تخریبی سرگرمیوں کا اصل ہدف " ایران " ہے؛ امریکی حکومت ایک طرف ایران کے اسلامی انقلاب کی نظریاتی بنیادوں اور خطے کی اقوام پر اس کے اثرات سے خوفزدہ ہے جبکہ دوسری طرف دیگر ممالک کو ایران سے ڈرا دھمکا کر انہیں اسلحہ خریدنے کی ترغیب دلا کر اپنی اسلحہ کی صنعت کو رونق بخشنے میں مصروف ہے۔
اسلامی دنیا میں دہشت گردی اور بدامنی کو جاری رکھنے میں امریکہ مندرجہ ذیل اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے:
۱۔ امریکہ، عالم اسلام کو اندرونی مسائل و مشکلات میں مصروف کر دینا چاہتا ہے تاکہ مسلمانوں کی توجہ مقبوضہ فلسطین اور بیت المقدس نیز غاصب اسرائیل کیطرف نہ جائے۔
۲۔ امریکہ کا مقصد اسلامی مزاحمت کی مرکزیت کو توڑنا ہے۔
۳۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے ہمسایہ ممالک میں موجود بدامنی میں پھنسانا چاہتا ہے۔
۴۔ خطے میں بدامنی اور انارکی پھیلانا ہے۔
۵۔ عالم اسلام اور اسرائیل کے درمیان ٹکراو کو عالم اسلام اور ایران کے درمیان ٹکراو میں تبدیل کرنا ہے۔
اسلام ٹائمز