اسلام دشمنوں نے غیر صالح حکام کے ہاتھوں تفرقہ اندازی کی تلوار سے امت پیغمبر اسلام ؐ کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے۔
تہذیب و ثقافت اور لوگوں کی اجتماعی زندگی میں مثبت عناصر سب سے زیادہ ان فرزانوں کی قربانی و فداکاری کے مرہون منت ہیں جو اپنے بلند و بالا افکار کے ذریعے شریعت، عدل و انصاف، آزادی و استقلال، ابدی حیات و سعادت اور مادی دنیا سے متعلق محسوسات و مشاہدات سے بالا و برتر حقائق و اقدار کیطرف بلاتے ہیں؛ چنانچہ ان کی بھی دو قسمیں ہیں:
کچھ نے تو صرف راستہ دکھایا ہے اور اپنی فکری و ثقافتی کوششوں کے ذریعے اپنے مکتب فکر کی حفاظت کی ہے یا کوئی فلسفی بنیاد اور فکری نظام تلاش کیا ہے اور کچھ لوگوں نے ثقافتی انقلاب اور تحریکوں کی بنیاد رکھنے پر اکتفاء نہیں کی، بلکہ معاشرہ میں تبدیلی لانے اور مطلوبہ نظام نافذ کرنے کےلئے خود میدان عمل میں اتر پڑے ہیں۔ اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچنے کےلئے جہاد کیا ہے اور ان آرزوؤں کی راہ میں اپنی جان و مال کو بھی قربان کر دیا ہے۔ وہ بلند ہمت لوگ جنہوں نے میدان عمل میں اپنی راہ اور اپنے افکار کی حقانیت کو ثابت کر دکھایا، یقینا یہی لوگ ہیں جنہوں نے گہرے اور پائیدار اجتماعی انقلاب برپا کئے ہیں۔ انسانوں کو حقیقی تمدن و تہذیب سے روشناس کرایا ہے اور لوگوں کی فردی و اجتماعی زندگی کے وسیع پہلوؤں پر اپنے نقوش و اثرات چھوڑے ہیں اور یہ بات بلا خوف و تردید کہی جاسکتی ہےکہ انسانی زندگی کے روشن ترین تاریخی مناظر ان ہی بزرگوں کی مجاہدانہ کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اس نورانی کارواں کے سپہ سالار انبیائے الٰہی اور اولیائے خدا رہے ہیں اور انقلاب اسلامی کے ظہور اور امام خمینی ؒ کی تحریک کو صرف اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
امام خمینیؒ نے اس وقت ملت اسلامیہ کی فلاح کےلئے تن تنہا مشعل ہدایت ہاتھ میں اٹھائی ہےکہ جب شاید ہی کسی نے اس بات کو باور کیا ہو کہ ایک دن اسی چراغ کی شعاعیں دنیا کے آخری سرے تک پہنچ جائیں گی اور مشرق و مغرب میں ظلم و استبداد کے خلاف جہاد و پیکار کرنے والوں کی راہیں روشن کر دیں گی۔
گزشتہ قوموں کی تاریخی داستانیں اور انقلابات کا دہرایا جانا صرف اس لحاظ سے اہمیت کا حامل نہیں ہےکہ حقیقتیں سامنے آجاتی ہیں اور تحریف کا راستہ بند ہو جاتا ہے، بلکہ آئندہ نسلوں کی صحیح خطوط پر راہنمائی کےلئے ماضی کی مکمل پہچان ایک ایسی ضرورت ہے جس سے اجتناب نہیں کیا جاسکتا۔
جب سے اسلام کی قسمت کا فیصلہ غیر صالح حکام کے ہاتھوں میں آیا ہے اور دشمنان دین خدا نے تفرقہ اندازی کی تلوار سے امت پیغمبر اسلام ؐ کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے اسلامی سرزمین کے وسیع حدود ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر فاسد حکومتوں کی نذر ہوئے ہیں۔
موجودہ دور میں انقلاب اسلامی کی آواز گونجنے تک ہمیشہ ہی اسلامی ممالک کے گوشہ و کنار میں اصلاح طلب تحریکیں جاری رہی ہیں، لیکن یہ تمام تحریکیں مختلف عوامل، مثلاً ضروری وسائل فراہم نہ ہونے یا مناسب شرائط و حالات میسر نہ ہونے اور زیادہ تر موارد میں ایک خود ساز قاطع و سنجیدہ قیادت نہ ہونے کی وجہ سے یا تو ابتدائی ایام میں ہی یا پھر درمیان راہ میں رک گئیں، بلکہ خیانتوں کے زیر اثر بے راہروی کا شکار ہو گئیں۔ البتہ اس مسلسل جدوجہد اور نیک نیتی کے ساتھ کئے جانے والے انقلابی اقدامات کا یہ نتیجہ ہےکہ امت اسلامی کی تاریخ میں رونما ہونے والے سخت ترین واقعوں کے باوجود اسلام طلبی کی فکر اپنی جگہ ہمیشہ زندہ رہی ہے۔
ایران، کہ جس نے ماضی کی تاریخ میں عالم اسلام کے ایک حساس ترین علاقے کی حیثیت سے وقتا فوقتا اپنا کردار بخوبی ادا کیا تھا اور اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اموی حکومت کے خلاف حضرت سیدالشہداء ؑ کے انقلابی اقدام کے دفاعی مرکز کے عنوان سے مشہور تھا، عہد جدید میں اس کی حالت بھی دوسرے اسلامی ممالک سے کچھ بہتر نہ تھی۔ قاچاری دور میں ان کی خیانتوں کی وجہ سے سرزمین ایران کا خاصا حصہ دوسروں کے حوالہ کر دیا گیا۔ مشروطہ کی تحریک نے جو علماء و فقہاء کی سرکردگی میں شروع ہوئی اس وقت لوگوں کے دلوں میں امید کی کرن روشن کر دی تھی، لیکن وہ کچل دی گئی اور اس کی زمام حکومت کے دباؤ اور کچھ غیر مذہبی روشن فکروں کی خیانت کے نتیجہ میں علماء کے ہاتھ سے نکل کر اپنے اصلی خطوط سے منحرف ہوگئی اور مفسد بادشاہوں کے ہاتھوں میں اقتدار آجانے کا سبب بنی۔
وہائٹ ہاوس کے سیاسیوں نے کمیونسٹوں کے اثر کو روکنے اور عوامی دباؤ کم کرنے کےلئے اپنے ماتحت کنٹرول غلام حکومتوں کو ظاہری اصلاحات کے پروگرام شروع کرنے کا حکم دے دیا۔ ایران میں بھی شاہ نے امریکی دباؤ کے تحت وزارت عظمی کا قلمدان ڈاکٹر علی امینی کو سونپ دیا۔ امریکہ کی خواہش کے مطابق نئے سیاسی ماحول کی بحالی کےلئے کچھ بنیادی تبدیلیاں ضروری تھیں جن میں سرفہرست زرعی اصلاحات کا کام تھا۔ ارضی اصلاحات کا بل دی ماہ ۱۳۴۰ھ ش (جنوری ۱۹۶۲ء) میں پاس کر دیا گیا۔
اکتوبر ۱۹۶۲ء میں صوبائی و شہری انجمنوں کی تشکیل کا بل بھی پاس ہوگیا۔ بل پاس کرنے کا اصل مقصد اسلام کے اثر کو معاشرہ سے ختم کرنا تھا۔ اس بل کی منظوری سے انتخاب میں حصہ لینے والے ووٹروں اور نمائندوں دونوں کےلئے اسلام کی شرط ختم کر دی گئی اور حلف لینے کےلئے قرآن مجید کی شرط ہٹا کر آسمانی کتاب کی لفظ لکھ دی گئی!
امام خمینی ؒ نے بل کی منظوری پر سختی سے مخالفت کی اور دیگر مراجع عظام، حوزات علمیہ اور عوام کو بھی اس بل کےخلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی۔
امام خمینیؒ کیطرف سے وزیر اعظم کے نام دھمکی آمیز ٹیلی گراموں، تقریروں اور بیانوں، مراجع دینی کی حمایت اور تہران و قم نیز ایران کے دوسرے شہروں میں عوام کے عظیم و وسیع مظاہروں کی وجہ سے شاہی حکومت نے اس بل کے منسوخ قرار دیئے جانے کی خبر قم میں مراجع تک پہنچائی۔
امام خمینی ؒ نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اعلان فرمایا: اس بل کی لغویت کا سرکاری طور پر باقاعدہ حکومت کیطرف سے اعلان ہونا چاہئے۔
آخرکار حکومت اپنی پسپائی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی اور عوام کو یہ کامیابی امام خمینی ؒ کی قیادت میں ملی تھی۔
امریکہ اپنے نئے سیاسی منصوبے اجراء کرنے پر اصرار کر رہا تھا۔ سفید انقلاب، کے نام سے ایک ترقیاتی منصوبہ تیار کیا جاچکا تھا جو ۲۶ جنوری ۱۹۶۳ء کو ایک بناوٹی ریفرنڈم کے ذریعے جاری کر دیا گیا۔
اس مصنوعی رائے عامہ کے بعد ۲۰ فروری ۱۹۶۳ء کو امام خمینی ؒ نے اپنے ایک بیان میں فرمایا:
"ان زنگ خوردہ فرسودہ سنگینوں سے نہ ڈرو یہ بندوق کی نالیں جلد ٹوٹ جائیں گی یہ دربار حکومت سنگینوں کے زور پر ایک عظیم ملت کے مطالبات محو نہیں کر سکتا۔ آج نہیں تو کل اسے شکست اٹھانا پڑےگی"۔
شام ۱۴ خرداد کو شاہی کمانڈوز، امام خمینی ؒ کےگھر کا محاصرہ کر لیتے ہیں اور سحر کے وقت انقلاب کے قائد امام خمینی ؒ کو گرفتار کرکے تہران لے جاتے ہیں اور پھر ۱۵ خرداد ۱۳۴۲ ھ ش کا عظیم حادثہ رونما ہوتا ہے جو دراصل امام خمینی ؒ کے انقلاب کے سلسلہ میں عوام کی حمایت کا نقطہ عروج کہا جا سکتا ہے۔
جاری ہے
امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۲
امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۳
امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۴
امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۵
امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۶