رہبر معظم انقلاب نے بروقت داعش کی فکر کا ادارک کیا اور شام کی گرتی ہوئی حکومت کو بچا لیا گیا اور بغداد کیطرف اٹھتے ہوئے پاؤں روک دیئے گئے۔
پاکستان، ایران اور افغانستان تینوں ممالک باہم جڑے ہوئے ہیں اور دنیا کے اہم ترین خطے میں واقع ہیں۔ ماضی قریب میں ہی دیکھ لیں، روس اور امریکہ کے درمیان ہونے والی جنگ اسی خطے میں وقوع پذیر ہوئی، جس نے دنیا کو یک قطبی دنیا میں تبدیل کر دیا۔
وطن عزیز پاکستان 2001ء سے علاقے میں جاری جنگ کا حصہ ہے۔ دستاویزات کے مطابق، اب تک اس جنگ میں اسی ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں، ایک سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے، تعلیمی اداروں پر حملوں کے خطرات سے بے تحاشہ تعلمی نقصان ہوچکا ہے، پاکستانی لیڈر شپ محترمہ بےنظیر بھٹو سے آرمی جنرلز تک اس لڑائی میں کام آچکے ہیں، اسی طرح معاشی سرگرمیوں کے ناپید ہونے سے بے روزگاری کا طوفان بے شمار جرائم اپنے ساتھ لےکر آیا ہے، جس سے معاشرہ مجموعی طور پر پریشان ہے۔ یہ پاکستان قوم کی ہمت ہے جو کئی سانحات کو برداشت کر گئی۔
2001ء سے لےکر اب تک پورے پاکستان میں آپریشنز کئے گئے، جن سے لاکھوں لوگ بےگھر ہوگئے اور کئی تو آج بھی بےگھر ہیں۔ یہ پاکستان کی صورتحال کا تھوڑا سا جائزہ ہے۔
خطے کا دوسرا ملک افغانستان عملی طور پر امریکی قبضہ میں ہے، جہاں اس کےخلاف ایک تحریک جاری ہے۔ افغانستان وہ بدقسمت ملک ہے جو براہ راست بین الاقوامی قوتوں کی جنگوں کا اکھاڑا ہے۔ لاکھوں افغان کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور جو ملک میں موجود ہیں، وہ ہر وقت جان کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ افغانستان کی اقتصادیات تباہ ہوچکی ہے، اس کے وسائل برباد ہو رہے ہیں، لاکھوں افغان اس جنگ کی نظر ہوگئے اور لاکھوں معذور بھی ہیں، بے روزگاری سے تنگ افغان مہاجرین دنیا بھر میں پناہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اب رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی حکمت عملی دیکھتے ہیں، یہ بات ذہن میں رہےکہ ایران کو علاقائی خطرات کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اور امریکہ سے بھی براہ راست خطرہ ہے، وہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب وہ دن آئے اور وہ انقلاب اسلامی کو ختم کر دیں۔ ایسے خطرناک حالات میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جب استعمار پاکستان اور افغانستان کو دہشتگردی کےخلاف جنگ کے نام پر تختہ مشق بنائے ہوئے تھا، سب اس کے ہمنوا بنے ہوئے تھے، ایسے میں ان کے ناپاک عزائم کو ایران سے دور رکھا گیا۔ ایران میں چند بم دھماکوں کے علاوہ دشمن کسی سازش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ امریکہ کی بجائے افغان عوام کی حمایت کی گئی۔ خطے میں اسرائیل کے تحفظ کےلئے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری سے داعش کو کھڑا کیا گیا۔ عراق اور شام میں داعش کے آغاز پر کچھ اس طرح کا ماحول بنایا گیا کہ اچھے بھلے یہ سمجھنے لگے کہ داعش دراصل شامی صدر بشار الاسد اور عراقی وزیراعظم کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں ملکوں میں عوام جمہوریت کےلئے اٹھے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ بڑے طریقے سے اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ بنایا گیا کہ شام میں بشار علوی شیعہ بنا اور مالکی کو شیعوں کے نمائندے کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان دونوں کو خونخوار حکمران کے طور پر پیش کیا گیا، جو اہلسنت کا وجود ختم کر دینا چاہتے ہیں، اس سے دنیا بھر میں موجود فرقہ پرستوں کو شام اور عراق لانا آسان ہوگیا۔ لوگ مشرق و مغرب سے استعمار کے ایجنڈے کی تکمیل کےلئے شام و عراق پہنچ گئے۔
داعش کی فکر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آئےگی کہ ان میں انسانیت دشمنی کے ساتھ ساتھ، شیعہ دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ اس لئے تھا کہ ان سب گروہوں کو شام و عراق سے ایران کےخلاف استعمال کیا جاتا تھا۔ رہبر معظم نے بروقت اس کا ادارک کیا اور وہ جنگ جو تہران، شیراز اور اصفہان کےلئے ڈیزائن کی گئی تھی، اسے ایران کی بجائے شام و عراق میں لڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عراق و شام کی حکومتوں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا گیا، عملی طور پر ان کی حمایت کی گئی، شام کی گرتی ہوئی حکومت کو بچا لیا گیا اور عراق میں بغداد کی طرف اٹھتے ہوئے پاؤں روک دیئے گئے۔ ملت شام اور عراق نے عالمی استعمار کی سازش کو ناکام بنانے کےلئے بہت بڑی قربانیاں دیں، اپنے ملک اور نوجوان نسل کو تباہ کرا لیا، مگر اپنی نسلوں کو ان جانوروں سے بچا لیا، جن کے خارجی ہونے میں کوئی شک نہیں، جو انسانیت کے نام پر دھبہ تھے۔
رہبر معظم انقلاب، داعش کےخلاف شام و عراق میں اقدام نہ کرتے تو آج ایران اس جنگ کا شکار ہو جاتا، یہ ان کی حکمت عملی تھی کہ ایران اس فتنے سے محفوظ رہا۔ اب استعمار اپنے دیگر حربے استعمال کر رہا ہے، جس میں ان کو ناکامی ہوئی ہے، وطن عزیر پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر جنجوعہ کا ایک ہفتہ میں ایران کا دو بار دورہ کرنا بتا رہا ہےکہ پاکستان و ایران مل کر خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ رہبر معظم کی کامیاب حکمت عملی ہےکہ عراق، شام میں بغاوت کی آگ بجھ چکی ہے اور ایران کے اندر سے اٹھنے والے فتنے کو ختم کر دیا گیا ہے۔
حوالہ: اسلام ٹائمز سے اقتباس