جب منصور وزیر اعظم بنا تو اس نے تہران کی امنیت کمیٹی کے سربراہ مولوی کو ایک وفد کے ساتھ امام خمینی (رح) کے پاس بھیجا تا کہ امام (رح) سے اس عہدہ کو قبول کرنے اور اس سے متعلقہ اپنے فرائض انجام دینے کی اجازت طلب کرے۔ امام (رح) انہی دنوں یعنی مئی 1963ء میں تازہ جیل سے نکل کر آئے تھے۔ جب یہ امام (رح) کے ہاں آئے تو ابھی دس منٹ ہی ہوئے تھے کہ امام (رح) باہر تشریف لائے اور مہمانوں کے پاس آکر بیٹھ گئے ۔ سارا مجمع خاموش تھا اور ہر طرف سکوت طاری تھا۔ آخر کار امام (رح) نے فرمایا: یہ معزز مہمان کسی کام کی غرض سے آئے ہیں؟
مولوی نے کہا: ہم آغا منصور کی طرف سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہمیں آپ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو وہ اپنے کام کا آغاز کریں۔ امام نے فرمایا:
میں نے نہ تو کسی کے ساتھ صیغہ اخوت پڑھا ہوا ہے اور نہ ہی کسی سے میری دشمنی ہے۔ لہذا مجھے نہ تو منصور سے کوئی دشمنی ہے اور نہ ہی میں نے ان کے ساتھ صیغہ اخوت پڑہا ہوا ہے۔ میں فقط ان کے اعمال اور رفتار کو دیکھوں گا اگر ان کی یہی طریقہ جاری رہا کہ جو اس وقت اسلام، قرآن اور شرع مقدس کے خلاف ہے تو پھر مجھ سے بھی کسی حمایت اور خاموشی کی امید نہ رکھیں کیونکہ میں اپنی حق پر مبنی طریقہ میں تبدیلی نہیں لاؤں گا۔
پا به پای آفتاب، ج 3، ص 11-12