محمد اسلم خان: شام کی تباہی کو نبی رحمت نے علامت کے طورپر بیان فرمایا ہے۔
امریکہ اور چین میں اگر لوگ ایندھن یا گیس حاصل کرپارہے ہیں تو اس کی وجہ داعش اور اس جیسے گروہوں کےخلاف جنگ میں جانوں کی عظیم قربانی ہے۔ داعش اور اس کے حامی کےخلاف مزاحمت کرکے شکست فاش سے دوچار کرے والی افواج کے جرنیل کون تھے ان کے نام کوئی نہیں جانتا؛ ان کی داستان شجاعت بیان کرنے والا کوئی نہیں کہ یہ شاطر امریکیوں کو پسند نہیں ہے۔ دہشت گردی کےخلاف اس جہاد میں عراقی حکومت نے بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اس مقدس جنگ میں سنی شیعہ، مسیحی اور ایزیدی گروہ شانہ بشانہ داعشی درندوں سے لڑے جس کےلئے ممتاز عراقی عالم آیت اللہ سید علی سیستانی کے فتوی کی بنیاد پر یہ اتحاد تشکیل پایا تھا۔ جس کا مقصد متحد ہوکر داعش جیسے کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہ اتحاد دہشت گردی کےخلاف عوام کو ایک مزاحمتی قوت میں ڈھالنا تھا۔ المالکی نے ان فورسز کو سنی اکثریتی علاقوں میں داعش کےخلاف لڑنے کےلئے استعمال کیا۔
امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد کےخلاف اسرائیل کو شکست فاش سے دوچار کرنے والی حزب اللہ کے حسن نصر اللہ کا کردار بھی ابھرکر سامنے آیا ہے۔ جس کے بعد علاقے میں لبنان میں کلیدی حیثیت رکھنے والی حزب اللہ کا سیاسی اور عسکری کردار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اب یہ ڈھیلا ڈھالا نیم عسکری اتحاد امریکی اور اس حواریوں کا مقابلہ کرنے کےلئے ایک چھوٹی سی سریح الحرکت فوج کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اسرائیل سے نبردآزما حزب اللہ کو سعد حریری کی وزارت عظمی سے فارغ کرنے کی چال کے زہر میں بجھے تیر سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔
سعد حریری سعودی عرب سے واپس لبنان آگئے اور صدر سے ملاقات کے بعد اپنا استعفی واپس لےلیا۔ حزب اللہ کابینہ میں شامل ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے اس ساز کا نشانہ حزب اللہ تھی۔ وزیر اعظم کے استعفی کا مطلب ایسا بحران پیدا کرنا تھا جس میں کابینہ تحلیل ہوجائے اور حزب اللہ لبنانی حکومت سے باہر ہوجائے۔ سنجیدہ فکر تجزیہ نگار اس اتحاد کو استحکام لانے والی فوج قرار دے رہے ہیں جس نے مجموعی طورپر امن کی بحالی میں کردار ادا کیا۔
شام کی تباہی کو نبی رحمت نے علامت کے طورپر بیان فرمایا ہے۔ فرمان عالیشان ہےکہ شام کی تباہی کے بعد مسلمانوں میں کوئی خیر باقی نہیں رہےگا۔ شام حربی اور عسکری لحاظ سے بھی نہایت اہم خطہ ہے۔ امت مسلمہ کے مستقبل کا دارومدار شام کے استحکام سے جڑا ہے۔
دنیا میں امن کے نام لیوا دہشت گردوں کے سرپرست بے نقاب ہورہے ہیں اور جن پر دہشت گردی کا الزام اور تہمت دھری جاتی ہے وہ سانپ بل سے نکال نکال کر لوگوں کو اس کے زہر سے بچانے والے کا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ستائش دہشت گردوں اور ان کے پروردہ مائی باپ کی ہونی چاہئے یا پھر اصل ہیروز مجاہدین کی اس کا فیصلہ تاریخ کرےگی لیکن امریکی پٹھووں میں جس طرح جوتوں میں دال بٹ رہی اس کا تماشا ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔
ایران میں ہنگامے جاری ہیں، اب نام نہاد قوم پرستوں کے نعروں "نہ لبنان، نہ غزہ، میری زندگی ایران کےلئے" کے مقابل "لا شرقیہ لا غریبہ، اسلامیہ اسلامیہ" کا عربی نعرہ تہران اور دیگر شہروں میں گونچ رہا ہے۔
جمال الدین افغانی کا فلسفہ امت اس بار تہران کے گلی کوچوں میں جلوہ گر ہو رہا ہے اور مکار امریکی شہ دماغ ششدر اپنی چالیں پسپا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور شاہی محلات میں ماتم ہو رہا ہے۔ ایران کا حسن روحانی آئین اور قانون کی پاس داری کرتے ہوئے مظاہرین کی حمایت کررہا ہے۔
ایران میں منہ کی کھانے کے بعد ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کی طرف رخ کرکے انگارے برسانے شروع کردیئے۔ پاکستان کو پاگل پن میں وہ کیا کچھ نہ کہہ گیا۔ اس کا کہنا تھا: امریکی نے ۱۵ سال میں ۳۳ ارب ڈالر سے زائد کی امداد دےکر بے وقوفی کی لیکن اب پاکستان کو کوئی امداد نہیں دی جائےگی۔ پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اوردھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستان امریکی حکام کو بے وقوف سمجھتا ہے۔ پاکستان ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے جنہیں ہم افغانستان میں نشانہ بنا رہے ہیں، پاکستان ہم سے معمولی تعاون کرتا ہے، اب ایسا نہیں چلےگا۔
واضح رہےکہ امریکی صدر کی حالیہ ٹویٹ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں تناو کے باعث سامنے آئے۔ امریکہ پہلے بھی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی قومی سلامتی کی پالیسی جاری کرتے ہوئے یاد دہانی کرائی کہ پاکستان، امریکا کی مدد کرنے کا پابند ہے کیونکہ وہ ہر سال واشنگٹن سے ایک بڑی رقم وصول کرتا ہے۔ ہم نے پاکستان پر واضح کردیا ہےکہ جب ہم مسلسل شراکت داری قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ملک میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں کےخلاف فیصلہ کن کارروائی دیکھنا چاہیں گے کیونکہ ہم ہر سال پاکستان کو بڑے پیمانے پر ادائیگی کرتے ہیں لہذا انہیں مدد کرنا ہوگی۔ امریکی نائب صدر مائیک پنس کی جانب سے بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام آباد کو نوٹس پر رکھ لیا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے پر بہت کچھ کھونا پڑےگا۔
ٹرمپ کی تازہ ترین دھمکیوں اور توہین آمیز رویے پر حکومت کی طرف سے اس کا فوری نوٹس لیا جانا چاہنے تھا، اس حوالے سے ایک ابال اٹھتا ہوا دکھائی بھی دیا پالیسی بیان کےلئے وزیر اعظم خاقان عباسی نے کابینہ کا اجلاس بلایا جو گزشتہ روز منگل کو ہونا تھا۔ سنگینی فوری طورپر کابینہ کے اجلاس کی متقاضی تھی دوسرے دن ہوجاتا تو بھی بجا مگر یہ مزید ایک دن کےلئے موخر کر دیا گیا۔ شاید نواز شریف کی سر توڑ کوششوں کے بعد ولی عہد سعودی عرب محمد بن سلمان سے ملاقات کا جشن منانا اور اپنے باس کا سعودی عرب سے واپسی پر پر جوش استقبال کرنا اور جشن منانا مقصود تھا۔ آج پاکستان میں لیڈر شپ کے فقدان کا شدت سے احساس ہورہا ہے جو مہاتیر محمد اور طیب اردگان کی طرح امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتی۔