حج کا حادثہ

حج کا حادثہ

حاجیوں کو امام حسین (ع) کی طرح شہادت پیش کرنے کی طرف دعوت کی

اس سال جس آیہ مجیدہ کو امام (رح) نے حجاج کے نام پیغام کے سرنامہ کلام کے عنوان سے منتخب فرمایا وہ گذشتہ سالوں کی نسبت بہت زیادہ منفرد تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے ہمیشہ آیت برائت از مشرکین، کو صدر پیغام میں بیان فرماتے لیکن اس مرتبہ آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کو تحریر فرمایا:

و من یخرج من بیتہ مهاجرا الی الله و رسوله ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجره علی اللہ... (النساء، 100)

اور جو کوئی بھی الله تعالی اور اس کے رسول (ص) کی  راہ میں ہجرت کی (نیت) سے گھر سے باہر نکلے اور پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ تعالی کے پاس ہے۔

اور حاجیوں کو امام حسین (ع) کی طرح شہادت پیش کرنے کی طرف دعوت کی۔

احمد آقا فرماتے ہیں: جب میں نے اس پیغام کو پڑھا اس وقت میرے لئے اس کا قبول کرنا بہت گراں تھا، لہذا میں نے جب یہ پیغام آقا انصاری کو دیکھایا تو انہوں نے بھی میری ہی بات کی تایید کی۔ اس کے بعد میں امام (رح) کی خدمت میں چلاگیا اور عرض کی: آقا! یہ صرف میری بات نہیں بلکہ دیگر علماء کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سال جو آیت کریمہ آپ نے بطور سرنامہ کلام انتخاب فرمائی ہے اس کا مراسم اور مناسک حج سے دور دور تک کا تعلق بھی نہیں ہے۔

اس پر آپ (رح) نے فرمایا: جتنا ممکن  ہوسکے جلد از جلد اس پیغام کو اخباروں میں بھیجیں اور ایرانی حجاج کرام تک پہنچائیں!

یہ پیغام یکم ذی الحجہ کو صادر ہوا، اور چھ ذی الحجہ کو خبر ملی کہ ایرانی حجاج کو دوران حج قتل کردیا کیا یعنی ٹھیک پانچ دن بعد یہ تلخ حادثہ پیش آگیا۔ لہذا یہ واقعہ ہر چیز سے پہلے جس بات کی نشاندہی کرتا ہے وہ حضرت امام (رح) کا کمال درجے کا عرفان اور ان کی بے مثال کرامت ہے۔

پا به پای آفتاب، ج 2، ص 257۔

 

ای میل کریں