کیا انسان کےلئے بنی ہوئی پوری کائنات صرف اس لئے ہےکہ انسان اس میں خواہشات پوری کرے اور بس؟
انسان کو ہمیشہ ہوشیاری کےساتھ نفس کی نگرانی کرنی پڑےگی۔ اگر شیطان دل میں وسوسہ ڈالے کہ معاہدے کےخلاف عمل کر تو شیطان کو بتاو کہ آج میں نے خدا کی بارگاہ میں وعدہ کیا ہے، اللہ تعالٰی کی مخالفت نہیں کروں گا۔
اخلاق اپنانے یعنی اپنے آپ کو سدھارنے کا طریقہ کتاب چہل حدیث میں، امام خمینی (رح) نے جو بیان کیا ہے، اس کے پانچ مرحلے ہیں؛ یہ جہاد اکبر ہے، جو ساری زندگی جاری رہےگا: " تفکر، عزم، مشارطہ، مراقبہ اور محاسبہ" ہم یہاں پر اسے مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:
۱/۔ تفکر
انسان دن اور رات میں کچھ لمحے سوچنے کےلئے مخصوص کر لےکہ جس مالک نے مجھے وجود جیسی نعمت عطا کی ہے، دنیا میں آسائش، آرام، راحت اور نعمتوں کے تمام ذریعے دیئے ہیں۔
اس مالک نے میری طرف انبیاء (ع) بھیجے، کتابیں نازل کیں اور کمال کیطرف ہدایت کر دی ہے؛ اب میری کیا ذمہ داری ہے؟
کیا انسان کےلئے بنی ہوئی پوری کائنات صرف اس لئے ہےکہ انسان اس میں کھائے، پیے، پہنے اور خواہشات پوری کرے اور بس؟
یہ کام تو جانور بھی کرتے ہیں تو کیا یہ جانوروں جیسی زندگی ہی انسان کا مقصد ہے؟
پھر انسان عاجزی اور انکساری سے اپنے رب کو پکارےکہ مجھے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ فرما۔ انشاءاللہ یہ سوچنا انسان کو جہادِ اکبر کے دوسرے مرحلے پر لے جائےگا۔
۲/۔ عزم و ارادہ
جب انسان اس مرحلے پر پہنچتا ہے تو اس سے پہلے، انسان اپنے آپ کو پہچان چکا ہے اور اپنی زندگی کا مقصد اور منزل بھی طے کرچکا ہے، اس دوسرے مرحلے میں انسان پکا ارادہ کرتا ہےکہ اس کے مالک اور محبوب نے اس کو جس منزل تک پہنچنے اور انسانی زندگی گزارنے کا جو پروگرام دیا ہے، اس پر ضرور عمل کرےگا؛ یعنی:
جو کام اس کے کمال کی راہ میں رکاوٹ ہیں، " حرام "، ان سے دور رہےگا۔
جو کام اس کے کمال تک پہنچنے کےلئے لازمی ہیں، " واجبات "، انہیں ادا کرےگا۔
جن اعمال سے وہ زوال کیطرف گیا ہے، " گناہوں " کی توبہ کرےگا۔
جو واجبات قضا کئے ہیں، انہیں ادا کرےگا۔
یعنی اپنے ظاہر کو رسول اکرم (ص) جیسا بنا کر ان کی سیرت پر عمل کرےگا اور یہ ایک حقیقت ہےکہ اللہ تعالٰی کی معرفت کی راہ میں آگے بڑھنے کےلئے ابتدا اپنے ظاہر کو شریعت و عقل کے مطابق بنانے سے ہی ہوتی ہے؛ جب تک انسان کا ظاہر خدائی شریعت کے مطابق نہ ہو، انسان کے باطن میں اللہ تعالٰی کی معرفت کا نور نہیں آ سکتا۔
۳/۔ مشارطہ اور معاہدہ
اپنے آپ کو سدھارنے والا انسان فکری طور پر آمادہ ہو کر عملی مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ اس مرحلے میں انسان اپنی پوری زندگی، سال، مہینے بلکہ ہفتے کے بجائے ہر روز کا پروگرام بنائے۔ انسان اپنے آپ سے معاہدہ کرےکہ "اے میرے نفس! میں آج کا دن تجھے اس شرط پر دے رہا ہوں کہ آج اللہ تعالٰی کے حکم کےخلاف کوئی عمل نہیں کروگے"۔
ظاہر ہےکہ صرف ایک دن اللہ تعالٰی کی مخالفت نہ کرنا آسان ہے۔ انسان آسانی سے اس معاہدے پر عمل کرسکتا ہے۔ انسان ایک دن کےلئے اپنے آپ سے ایسی شرط کرکے پکا ارادہ کر لے۔ تجربہ کرکے دیکھ لے یہ کتنا آسان ہے۔
۴/۔ مراقبہ اور نگرانی
نفس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد، انسان غافل ہو کر بیٹھ نہ جائے بلکہ ہمیشہ اس کی مکمل نگرانی کرے۔ اگر شیطان دل میں وسوسہ ڈالے کہ معاہدے کےخلاف عمل کر تو شیطان کو بتاو کہ آج میں نے خدا کی بارگاہ میں وعدہ کیا ہے، اللہ تعالٰی کی مخالفت نہیں کروں گا۔
خداوند عالم نے برسوں مجھ کو نعمتیں دی ہیں؛ صحت، سلامتی اور امن عطا کیا۔ اگر ابد تک اس کی فرمانبرداری کرتا رہوں، تب بھی ایک نعمت کا احسان نہیں اتار سکتا۔ اب کیسے ہوسکتا ہےکہ میں خدا سے وفا نہ کروں؟
۵/۔ محاسبہ
سارا دن نفس کی نگرانی کرنے کے بعد، رات کو سونے سے پہلے اپنے نفس سے سارے دن کا حساب لےکہ میں نے تجھے سارا دن دیا تھا، اس کے بدلے میں تو نے کونسی نیکیاں کمائی ہیں اور کون سے جرم کئے ہیں؟
اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں صرف ایک دن کے کئے ہوئے معاہدے میں نافرمانی تو نہیں کی۔
امام علی فرماتے ہیں:" جس نے اپنے نفس کا احتساب کیا وہ کامیاب ہوا، جس نے غفلت کی نامراد ہوا"۔ (نہج البلاغہ)
اگر نفس نے معاہدے کے مطابق عمل کیا ہو تو اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنا چاہئے، انشاءاللہ اس سے خدا کی رحمت کی نظر زیادہ ہوگی اور کل کے معاہدے پر عمل کرنا اور بھی آسان ہوجائےگا۔
اس طرح کچھ دن ایسے معاہدے کرنے سے انسان کے اندر خدا کی مخالفت سے بچنے کی مہارت پیدا ہوجائےگی اور کام زیادہ آسان ہوتا جائےگا، پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کی لذت آنا شروع ہوجائےگی۔
اگر وہ دن معاہدے کے مطابق نہ گزرا ہو تو اللہ تعالٰی سے معافی مانگنی چاہیے اور دوسرے دن بہادروں اور مردوں کی طرح فرمانبرداری کے پروگرام کےلئے پکا ارادہ کر لے۔
کچھ عرصے تک تفکر، عزم، مشارطہ، مراقبہ اور محاسبہ میں گزارنے سے اللہ تعالٰی بندے پر اپنی توفیق کے دروازے کھول دےگا اور انسان کو سعادت اور صراطِ مستقیم عطا کرےگا۔