نامہ نگار جماران نے امام کی تحریک میں فلسطین کے مقام کے متعلق کہا: فلسطین کا مسئلہ امام کے مقابلاتی اسٹرٹیجک کی ردیف میں ہے یعنی امام نے فلسطین کے مسئلہ کو بھی ٹیکنک کی صورت میں نہیں دیکھا بلکہ یہ موضوع آپ کے لئے اصل تھا۔ جب امام کی تحریک کی تاریخ میں ابتداء میں 40/ویں دہائی پر نظر ڈالتے ہیں ایک دلیل امام کی شاہ پر اعتراض اور اس کی مخالفت، اسرائیل سے پہلوی حکومت کا تعلق اور امام نے نے محمد رضا شاہ کی جانب سے اسرائیل کو قانونی حیثیت دئیے جانے پر اعتراض کیا۔اس طرح سے که امام خمینی (رح) نے اپنی تحریک کے آغاز میں پہلوی حکومت کی مخالفت فلسطین کا مسئلہ عنوان کرتے تھے۔ انہوں نے اضافہ کیا کہ یہ اسٹراٹیجی، امام کے سیاسی نظریہ میں آخر تک باقی رہے اس طرح سے کہ 15/ سال بعد ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے عنوان سے نام گذاری فرمائی تا کہ اسے کبھی فراموش نہ کیا جائے۔
عصر حاضر کے اس محقق نے اس سوال کے جواب میں کہ یہ موضوع امام کے سیاسی اصول میں کیوں تھا، کہا: یہ موضوع چند دلیلوں سے کافی اہمیت کا حامل تھا۔ امام کی نظریہ ایک مخالفت مسلمانوں کی سرزمین کے ساتھ تجاوز اور اس پر غاصبانہ قبضہ ہے اور یہ امام کے سیاسی نظریہ میں ایک قانون جانا گیا ہے۔ دوسرے ظالموں اور غاصبوں کے لئے رقم خرچ کرنا تھا یعنی ایسا نہ ہو کہ جس کو بھی طاقت مل جائے وہ مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کردے اور اسے قبضہ کرلے۔ آپ نے تیسری دلیل اس امر کی تکرار کے لئے تشویق سے روکنا جانا ہے اور تاکید کی کہ امام نے ان موقفوں میں ایک قسم کی رکاوٹ کا امکان ہے۔ چوتھی دلیل یہ تھی کہ امام کا نظریہ کہ مسلمان جہاں بھی زندگی گزار رہے ہیں انھیں غایت درجہ عزت کے ساتھ زندگی گزارنا چاهیئے اور ان کی توہیں نہیں ہونا چاہیئے۔ بنابریں مسلمانوں کی توہین کا سد باب کرنے کے لئے بین الاقوامی دنیا میں اس کام کا ہونا ضروری تھا۔
مرادی نیا نے تاکید کی: بہر حال یہ سارے دلائل ہیں کہ امام خمینی(رح) کے سیاسی تفکر اور نظریہ اور اس دور کے بین الاقومی سطح پر امام کی شناخت کے بارے میں ہے۔ 40/ویں دہائی میں شاید اسلامی ممالک کے بہت سارے قائدین اور سیاسی افراد اس موضوع کی اہمیت کو نہ جانتے ہوں۔ لیکن زمانہ نے بتایا کہ ایک موضوع تھا کہ اس دور میں دوسروں نے اہمیت نہیں دی لیکن چند دہائی بعد کس حد تک آئندہ سیاسی میں علاقہ کے بهت سارے ممالک اور دنیا میں موثر رہا۔
انہوں نے اس سوال کا جواب کہ قدس اور مسلمانوں کے قبلہ اول کے مسئلہ نے اس موضوع کو کتنا اہمیت دی ہے، کہا: سچائی یہ ہے کہ، یہ موضوع مسلمانوں کے لئے ایک حیثیت ہے یہ علاقہ بیت المقدس کی وجہ سے ہمیشہ احترام کا مرکز رہا اور پوری تاریخ میں مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ علاقہ ایک نسل پرست گروہ کی آرزوؤں کا مرکز واقع ہو اور عالم اسلام کے سیاسی جغرافیا کے حامل ایک اہم علاقہ پر قبضہ کرلیں تو اسے مسلمان قبول نہیں کریں اور یہ ایک قسم کی توہین ہے۔
تاریخ انقلاب کے اس محقق نے بتایا: اسی وجہ سے امام نے سب سے پہلے اس موضوع کی تاکید کی کہ مسلمان اس علاقہ میں ایک واحد سیاسی نظریہ اور عزت مندانہ تحریک کی پیروی کریں اور کبھی ذلیل و رسوا نہ ہوں۔
انہوں نے تحرک مقابلہ سے متعلق امام کے قبل و بعد کے نظریہ کے بارے میں کہا: ایک زمانہ میں فلسطین کا مسئلہ عربوں سے متعلق تھا، بعد میں معلوم ہوا کہ اعراب فلسطین کے مسئلہ کو اپنے مفادات کی پھتیٹ چڑھا سکتے ہیں۔ یعنی مصر، سعودی عرب، اردن، .... کہ فلسطین کے مسئلہ کو ایک عربی موضوع جانتے تھے لیکن کچھ دنوں بعد سمجھے کہ اپنے مفادات کے مقابلہ میں عالم عرب کے بعض حصہ کو کھودیں گے۔
مرادی نے اس بیان سے کہ امام نے فلسطین کے مسئلہ کو عرب دنیا سے خارج کردیا اور اس کو عالم اسلام کا مسئلہ بنادیا، کہا: عالم اسلام بھی اپنے موقف کی بنیاد کتاب الہی اور سنت نبوی پر رکھتا ہے۔ اس سے پہلے مشکل یہ تھی کہ فلسطینی عوام اور مسلمان کا اس مسئلہ کے بارے میں مقابلاتی محور نہیں تھا۔ امام خمینی (رح) نے فلسطین کے مسئلہ کو عالم اسلام کا مسئلہ بتاتے ہوئے جمہوری اسلامی کو اس مقابلہ کا محور قرار دیا اور یہ موضوع بھی مجاہدین کی مقبولیت کا موضوع بنا۔
مقابلہ کے اس اقدام سے مقابلہ میں تازہ روح پڑگئی اور اسرائیل کے لئے جن کے دل تڑپ رہے تھے اس محور پر اکٹھا ہوگئے۔ اس طرح ہوا ہے کہ جب ہم "فلسطین" کہتے ہیں تو بلافاصلہ یوم القدس اور امام خمینی (رح) کا نام ذہن میں آتا ہے اور یہ بات بہت سارے ممالک میں رائج ہوچکی ہے۔
انہوں نے موجودہ حالات میں مقاومت اور فلسطین کے موضوع پر کہا: عالم اسلام میں حد بندی بہت ہی واضح ہوچکی ہے۔ ایک زمانہ میں عرب ممالک میں بہت سارے لوگ اسرائیل سے مقابلہ کا پرچم بلند کرتے تھے اور دعوی کرتے تھے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ موضوع کو واضح کردیں گے اور واضح ہوجائے گا غاصبانہ قبضہ کا کون ملک مخالف ہے اور مقبوضہ سرزمین کی بازیابی کے خواہاں ہیں۔ در حقیقت یہ امام کی گفت و گو تھی جو باعث ہوا کہ فلسطین کی بحث یعنی قبضہ کے موافق اور مخالف کا موقف واضح ہو۔
یہ تاریخ کا محقق آخر میں اشارہ کرتے ہیں کہ اس وقت یہ موضوع اسلامی ممالک سے نکل کر دیگر ممالک میں پہونچ چکا ہے۔ اس وقت مغربی ممالک میں بھی غاصبانہ قبضہ کے خلاف تحریکیں سرگرم ہوچکی ہیں اور روز قدس اور دیگر مناسبتوں سے اس قبضہ کے خلاف اپنی مخالفت کا اعلان کرتی ہیں۔ امریکی سفارتخانہ کے بیت المقدس میں منتقل کرنے کے موضوع پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سارے مغربی ممالک اس کے مخالف ہیں۔ یہ بتارہا ہے کہ امام نے جو پودا لگایا تھا اس کا پھل 40/ ویں دہائی میں توڑا گیا اور آج ایک درخت بن گیا ہے کہ اب اسے کاٹا نہیں جاسکتا لہذا قدس پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی حکومت اس مسئلہ کے بارے میں اپنا فریضہ واضح کرے۔