امام خمینی اور شیعہ سنی اتحاد

امام خمینی اور شیعہ سنی اتحاد

امام خمینی علیہ الرحمہ نے پیغمبراعظم اور امام صادق کی ولادت کے دنوں کا نام "ہفتہ وحدت" رکھا اور شیعہ سنی اتحاد پر تاکید کی۔

امام خمینی علیہ الرحمہ نے پیغمبراعظم اور امام صادق کی ولادت کے دنوں کا نام "ہفتہ وحدت" رکھا اور شیعہ سنی اتحاد پر تاکید کی۔

امام راحل (رح) کی شیعہ سنی وحدت سے مراد، شیعوں کا سنی اور سنیوں کا شیعہ بن جانا نہیں ہے اور مقصد یہ نہیں کہ دونوں اپنے اعتقادات سے ہاٹھ اٹھائیں بلکہ امام (رح) فرماتے ہیں: دونوں اپنے مشترکہ عقائد پر ایک ہوجائیں ...

ہمیں اس پر فخر ہےکہ ہم پیغمر عظیم الشأن (ص) کے پیرو ہیں۔ ایسا نبی جن کا مقام اور منزلت " دنی فتدلی و قاب قوسین أو ادنی " ہے، وہ رسول (ص) جو اللہ تعالی کا حبیب اور محبوب ہے؛ اگر حضرت موسی کلیم اللہ ہیں، اگر حضرت عیسی روح اللہ ہیں تو خاتم الانبیاء حبیب اللہ ہیں۔ کلمۂ اللہ، اللہ سبحانہ تعالی کا جامع اور تمام صفات کو اپنے اندر سمیٹے اور بیان کرنے والا اسم ہے، وہ ہستی جس  کے بارے میں اللہ فرماتا ہے: اگر تم نہ ہوتے خلائق کو خلق نہ کرتا، وہ نبی جو آدم ابو البشر (ع) کی پیدائش سے قبل نبی تھے " کنت نبیاً و آدم بین الماء و الطین " وہ نبی جو علم کا شہر ہیں اور جو بھی اس علم سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے، اسے شہرِ علم کے دروازے یعنی علی ابن ابیطالب (ع) سے داخل ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں اور دوسری راہ اپنانے کی صورت میں اسے بےشمار مشکلات اور خطرات کا سامنا ہوگا۔ نبوت ہمیشہ، ولایت کے ساتھ ہے۔

نبی، انسان کو عالم کے حقایق سے آگاہ کرتا ہے اور اسے ان حقایق کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو کبھی بھی صرف عقل سے سمجھ میں نہیں آسکتیں۔

امام معصوم، طالب ِکمال انسان کو منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔ امام خمینی (رح) کی تعبیر کے مطابق "ائمہ مسلمین کی دعائیں اور مناجات مقصد تک پہنچاتیں صرف راہنمائی نہیں کرتیں" ٰ(صحیفہ امام؛ج۱۸،ص۴۵۳) ہم، امام کے پیچھے چل کر اس مقصد تک جس کی عکس کشی نبی (ص) نے کی ہے، پہنچ سکتے ہیں۔

امام خمینی (رح) نے پیغمبر اعظم (ص) اور امام صادق (ع) کی ولادت کے دنوں کا نام "ہفتہ وحدت" رکھا اور انقلاب کے ابتدائی دنوں سے شیعہ سنی وحدت پر انتھائی تاکید رکھتے تھے۔

حضرت امام (رح) کے آثار، کردار، سلوک اور سیرت اس بات کا زندہ گواہ ہیں کہ آپ ہمیشہ سے عقیدتی مباحث میں ولایت کے سرسخت حامی رہے ہیں، لیکن ان تمام کے باوجود کیا آپ کی جانب سے وحدت کی سفارش، آپ کا اپنے عقیدہ سے لوٹنے کے معنی ہیں؟ کیا یہ صرف ایک مصلحت ہے؟

امام کا یہ کلام آپ کی ہوشیاری، دور اندیشی اور بصیرت کی دلیل ہے جس نے ایران اور انقلاب کو تمام خطرات سے بچائی، دشمنان اسلام اور انقلاب جو ہمیشہ سے شیعہ سنی میں افتراق و انتشار ڈالنے میں ہر قسم کے حربے کو استعمال کیا ہے جن کے شور و شرابہ کی صدائیں، ایران میں بھی بہت ہی سنائی دیتے تھیں، لیکن امام نے اپنی ہوشیاری سے ان کی آوازوں کو اس طرح خاموش کیا کہ نہ صرف شیعہ سنی آپس میں نہ لڑے بلکہ یوں قیادت کی کہ شیعہ سنی دونوں نے ایک ہی مورچے سے اپنے دشمن سے جنگ کی اور اپنی مٹی اور وطن سے دفاع کیا۔

امام کی اس فکر اور سفارش نے اس وقت عملی جامہ پہن لی جب عوام میں وحدت اور انسجام کا سبب بنی اور یوں دشمن کا مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا حربہ اور سازش ناکامیاب ہوا۔

دشمن سب سے زیادہ جس نزاع کو ایجاد کرنے کے درپے ہے وہ شیعہ سنی کا جھگڑا ہے۔ جبکہ ان دونوں میں سب سے زیادہ توافق پایا جاتا ہے، کیوںکہ ہمارے اور اہل سنت میں بہت سے اشتراکات ہیں۔ ایک اللہ، ایک نبی، ایک کتاب، بہت سے شرعی احکام میں ہم مشترک ہیں اور امیرالمؤمنین (ع) کی عظمت قبول اور اس پر اعتقاد رکھنے کے حوالے سے ہم اکثر اہل سنت کے ساتھ ہیں۔

اہل سنت کے بزرگ علماء، امام علی (ع) کے اخلاص، صداقت، شجاعت، بہادری، بصیرت و دور اندیشی اور پیغمبر اعظم (ص) کی مصاحبت کی تعریف کرتے ہیں۔

پھر کیوں ایسے لوگوں میں جو یہ تمام مشترکات رکھتے ہیں دشمنی اور جھگڑا ہونا چاہیئے؟

کیا اس کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہےکہ یہ تمام دشمن کا حربہ ہے تاکہ اپنے ناپاک اور برے عزائم تک پہنچے؟ اور ہمیشہ سے یہ دشمن کا کارآمدترین حربہ رہا ہے۔ کیا جو لوگ اس سے نفع اور فائدہ لیتے ہیں وہ امیرالمؤمنین (ع) کے دشمن ہیں یا دوست؟ فائدہ وہ اٹھاتا ہے جو بالکل بھی امام علی (ع) پر کوئی اعتقاد و عقیدہ نہیں رکھتا۔

امام راحل (رح) کا شیعہ سنی وحدت سے مراد یہ نہیں کہ شیعہ سنی اور سنی شیعہ ہوجائے اور دونون اپنے اعتقادات سے کنارہ کشی کریں۔ امام فرماتے ہیں کہ ہم اپنے بنیادی مشترکہ امور اور اعتقادات پر پورے وجود کے ساتھ ایک ہوجائیں۔ امام فرماتے ہیں کہ آئیں ہم اپنے اساسی مشترکات پر متفق ہوجائیں۔ دیکھیں کہ آج دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ مسلمان ہیں، لیکن اس کے با وجود کیا ہماری طاقت، دنیا پر حاکم طاقتوں کا چھٹا حصہ ہے؟

دشمن، مسلمانوں میں فرقہ واریت کو ہوا دینے اور ان کی تضعیف سے بہت ہی آسانی سے مسلمان ممالک پر حکومت کرتا ہے۔ مسلمانوں کے ملک میں اپنی حکومت قائم کرتا ہے اور مسلمانوں کو اپنے ملک سے باہر کرتا ہے اور انتھائی بے شرمی کے ساتھ اصلی مالکان کو مجرم اور خطاکار خطاب کرتا ہے اور اسلامی ممالک کے ان حاکموں کو جو ان کی ایما و اشارہ اور مدد سے بر سر اقتدار آئیں ہیں کو کسی قسم کی مخالفت کی اجازت نہیں دیتے۔

یہ جابر حاکمان مسلمانوں کے مادی اور معنوی ذخائر کو دونوں ہاتھ لوٹتے ہیں اور امتوں اور آزاد فکر جوانوں کو سچے اسلام کی نسبت، بدبین کرتے ہیں۔ اس کی واضح اور بہترین مثال یہ ہےکہ مسلمانوں کے قیمتی خزانے ایسے ممالک میں پائے جاتے ہیں جو کسی بھی حوالے سے مسلمان کے متعلق نہیں ہیں۔

درحقیقت امام راحل (رح) کے کلام کا مقصد یہ ہےکہ آئیں ہم اپنے مشترکہ دشمن کو پہنچاں لیں، اس کے ہٹھکنڈوں کو سمجھیں اور اپنے مشترکات کے گرد متحد ہوجائیں، ایک ہاتھ ہوجائیں اور دین و ملت کے دشمنوں کو خود پر مسلط نہ ہونے دیں۔

ہم مسلمان ہیں، ہمیں اپنی انسانی اور اسلامی شرافت کی پاسداری کرنی چاہیئے، جس طرح ہم انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے دوران ایرانی اقوام، مذہبی اقلیتوں اور اہل تسنن و اہل تشیع کے درمیان اتحاد اور انسجام کے ذریعے نامنصافانہ جنگ میں ایران کو قسم خوردہ دشمن کے ہاتھوں سے نجات دلا سکیں اور ہمدلی، ہمدردی، پیار و محبت اور بھائی چارگی کا شاہد تھے۔

امام راحل (رح) نے جس وحدت کو پیش کیا ہے اس سے دفاع اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہےکہ ہماری کامیابی اور بقا کا راز بھی اسی وحدت کی بدولت ممکن ہے۔

 

حوالہ: "منظور امام از وحدت میان شیعه و سنی"؛ ڈاکٹر فاطمہ طباطبائی

 

ای میل کریں