ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کا ایٹمی معاہدہ "برجام" ایک بین الاقوامی سند ہے۔
بین الاقوامی مسائل کے ماہر جناب مہدی مطہر نیا نے جماران کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران جوہری معاہدے کے بارے میں، کہا:
ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کا ایٹمی معاہدہ "برجام" ایک بین الاقوامی سند ہے۔ امریکہ کی کوشش ہےکہ برجام کی ایک بہت ہی محدود اور معمولی سی تفسیر کرے اور اسی مدت میں بین الاقوامی سطح پر سرگرم اور فعال عناصر پر اس تفسیر کو لگاؤ کرے۔ اسی لئے ہماری تاکید اس پر ہےکہ امریکہ بینادی طور پر اس درپے ہےکہ کسی طرح ایران میں موجود نئے محافظ کار اور اعتدال پسند گروپ کو مشتعل کرے اور ان میں پائے جانے والا اختلاف اور شگاف کے ذریعے روحانی پر جوہری معاہدے سے نکلنے پر پورا دباؤ ڈال دیں۔
استاد دانشگاہ نے کہا: سنہ ۱۹۹۰ء امریکی پالیسی کی تحت انھیں ۲۱صدی میں مشرق وسطی کو فتح کرنا چاہیئے؛ دوسری طرف، مشرق وسطی کی چوکٹ میں داخل ہونے کے لئے ایشیا کے اہم ترین مرکز یا نیو ہارٹ لینڈ میں اپنے قدم جمانا امریکہ کےلئے ایک ناگزیر امر ہے۔ دوسری عبارت میں، ایران، خلیج فارس اور ایرانی پلیٹ فارم پر کنٹرول کرنا ان کی سیاست کا جزء ہے۔
انھوں نے اس نکتے کی طرف کہ ایران کا کردار خطے میں امریکہ کےلئے بڑا چیلنج ہے، کہا:
سنہ ۱۹۸۰میں ریگن کی کوشش تھی کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے میں مدد کرے، آج ڈونلڈ ٹرمپ جو اس کی جگہ دوسرا نسخہ کے عنوان سے طاقت ہاتھ میں لے چکا ہے، تاکہ طاقت کے زور پر ایران کو کنٹرول کرسکے اور موجودہ چیلنج یعنی ایران کو درمیان سے ہٹا سکے۔
انھوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئےکہ امریکہ اس قدر آسانی سے "جوہری معاہدہ" سے باہر نہیں نکل سکتا، کہا: ایران جوہری معاہدہ، ایک بین الاقوامی سند ہے لیکن امریکہ کی پوری کوشش ہےکہ اس معاہدے کی بہت ہی محدود اور مختصر تفسیر و تبصرے پر خود کو پابند ظاہر کرے اور اس مختصر سی مدت میں کوشش کی ہےکہ بین الاقوامی سرگرم عناصر پر بھی یہی تفسیر ٹھوس ڈالے۔ لہذا اس حوالے سے ہماری توجہ اس بات ہر ہونی چاہیئے کہ امریکہ کی سعی و تلاش اس پر مبذول ہےکہ کسی بھی بھانے اور حربے سے ایران کے نئے اصلاح خواہ گروہ میں موجود اختلاف اور کشیدگی سے استفادہ کرتے ہوئے ان پر دباؤ ڈالے تاکہ روحانی کی حکومت ایک طرفہ طور پر "جوہری معاہدہ" سے باہر نکلے۔
مھدی مطہر نیا نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: امریکہ موجود حالات کے تناظر میں اپٹمی معاہدے کو مختصر سی تفسیر میں بند کرےگا تاکہ امریکی کانگرس جوہری معاہدے پر نظرثانی کی ضرورت اور معاہدے کی پابندی کے بھانے سے اسے امریکہ میں قومی فیصلے کا عنوان دے تاکہ اس سایہ میں دیگر تین مقدمات یعنی دہشت گردوں کی حمایت، میزائیلوں کے تنازعہ اور ایران میں انسانی حقوق کے مسئلے سے متعلق کیسوں کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھائے۔
چاہے امریکی کانگرس ہو یا سینٹ دونوں میں ریپلیکن سینٹروں کی موجودگی جو ہمیشہ ایرانی حکومت کے خاتمے کی باتیں کرتے آ رہے ہیں ان کےلئے اچھی فرصت ہے تاکہ اپنی مطلوبہ توقع کے مطابق پیشرفت حاصل کریں۔