امام خمینی اطاعت گزار انقلابی مومن / امریکا ہرگز قابل اعتماد نہیں

امام خمینی اطاعت گزار انقلابی مومن / امریکا ہرگز قابل اعتماد نہیں

اطاعت گزار، انقلابی مومن کی صفت امام خمینی کی جامع صفت ہے۔ آپ[رح] اللہ تعالی کے عبد صالح، اہل خضوع و خشوع اور اہل ذکر و مناجات تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر مختلف عوامی طبقات کے عظیم الشان اور پر شکوہ اجتماع سے خطاب میں امام خمینی کو مومن، مطیع پروردگار اور انقلابی شخصیت قرار دیتے ہوئے ملت ایران کے انقلابی قائد کے راستے پر گامزن رہنے پر تاکید کی اور اسے عوام اور اسلامی نظام کی امنگوں کی تکمیل کا واحد راستہ قرار دیا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ۲۷ویں برسی کے اجتماع میں فرمایا: اطاعت گزار، انقلابی مومن کی صفت امام خمینی کی جامع صفت ہے۔ آپ[رح] اللہ تعالی کے عبد صالح، اہل خضوع و خشوع اور اہل ذکر و مناجات تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تیسری اہم صفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: امام خمینی انقلابی قائد تھے اور یہی صفت آپ سے بڑی طاقتوں کی برہمی کی بنیادی وجہ ہے۔  آپ نے مزید فرمایا: برسوں سے مختلف بہانوں منجملہ ایٹمی مسئلے اور انسانی حقوق کے موضوع کے ذریعے ملت ایران پر شدید دباؤ ڈالے جانے کی وجہ ملت ایران اور اسلامی نظام کی انقلابی ماہیت ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اعلی اہداف یعنی دین خدا کی بالادستی کی طرف لے جانے والے راستے کی تعمیر کی۔ دین خدا کی بالادستی کا مطلب ہے حقیقی سماجی انصاف کا قیام، غربت و جہل کی بیخ کنی، سماجی مشکلات اور استحصال کا خاتمہ، اسلامی اقدار کے نظام کی ترویج، جسمانی و اخلاقی و روحانی صحت و سلامتی کی گارنٹی، ملک کی علمی پیشرفت، قومی تشخص و وقار اور بین الاقوامی پوزیشن کا تحفظ اور ملکی توانائیوں کو متحرک کرنا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی انقلاب کی برکت سے ملک کو انھیں اہداف کی جانب گامزن کر دیا۔ حالانکہ ان اہداف کا حصول وقت طلب اور محنت و مشقت کا متقاضی ہے، لیکن یہ سب قابل عمل ہے اور اس کے حصول کی واحد شرط ہے انقلاب اور انقلابیت کے راستے پر گامزن رہا جائے۔
رہبر معظم نے مختلف عوامی طبقات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اس راستے پر انقلابی انداز میں پیش قدمی کی جا سکتی ہے اور ایسی صورت میں پیشرفت یقینی ہے، جبکہ پیش قدمی کے دوسرے طریقے بھی ہیں تاہم اس صورت میں افسوسناک انجام ہوگا اور ملت ایران اور اسلام کو شدید نقصان پہنچے گا۔ 
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: انقلاب عوام کے عزم و ارادے اور قوت ایمانی سے کامیاب ہوا اور اسی عوامی قوت کی بنیاد پر باقی ہے اور اس کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں، اس نے عسکری خطرات اور پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، 'مفلوج' نہیں ہوا بلکہ سربلندی کے ساتھ شجاعانہ انداز میں اپنے راستے پر گامزن ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ 
رہبر کا کہنا تھا: انقلابی ہونا صرف جدوجہد کے دور اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے سے مختص نہیں ہے بلکہ انقلاب اور انقلابیت تمام ادوار کےلئے ہے۔ انقلاب ایک بہتا ہوا دریا ہے اور جو لوگ بھی انقلابیت کے معیاروں کے مطابق چلتے ہیں وہ انقلابی ہیں حتی وہ نوجوان بھی جنھوں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں دیکھا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص انقلابی مفاہیم اور انقلابی اقدامات کے تعلق سے بہتر انداز میں کام کرے اور دوسرا شخص اس شدت و سنجیدگی کے ساتھ کام نہ کر پائے لیکن دونوں انقلابی کہے جائيں گے، اس شخص کو غیر انقلابی یا انقلاب مخالف نہیں کہا جا سکتا جو انقلاب کے معیاروں کے راستے پر تو ہے لیکن بہت تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد پانچ بنیادی علامات کا ذکر کرتے ہوئے انقلابی ہونے کے معیاروں کی تشریح شروع کی۔ آپ نے فرمایا:

اسلامی انقلاب کے بنیادی اقدار کا التزام، اعلی اہداف کو دائمی طور پر مد نظر رکھنا اور ان کے حصول کےلئے اپنے حوصلے بلند رکھنا، ملک کی ہمہ جہتی خود مختاری کا پابند رہنا، دشمن کی طرف سے ہوشیاری برتنا اور اس کی اطاعت سے اجتناب اور دینی و سیاسی تقوی۔ 
حضرت آقا نے انقلابی ہونے کے پہلے معیار یعنی بنیادی اصولوں اور اقدار کی پابندی کے بارے میں فرمایا: امریکی اسلام کے مقابلے میں حقیقی اسلام پر عقیدہ رکھنا اس معیار کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ امریکی اسلام کی دو شاخیں؛ رجعت پسند اسلام اور سیکولر اسلام ہیں اور استکبار اسلام کی ان دونوں شاخوں کی حمایت کرتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق دل کی گہرائی سے عوام کو محور و مرکز ماننا بھی انقلاب کے بینادی اصولوں کا جز ہے۔ اسلامی نظام میں عوام کی مرضی، مطالبہ، اہداف اور مفادات ہی سب سے اہم ترجیحات ہیں اور ان حقائق پر دل سے عقیدہ رکھنا انقلابی ہونے کی لازمی شرطوں میں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ پیشرفت، تبدیلی اور تکامل انقلاب کے دیگر بنیادی اقدار ہیں۔ انقلابی انسان ان اقدار پر بھی گہرا عقیدہ رکھتا ہے اور ہر دن نئی تبدیلی اور حالات کی بہبودی کےلئے کوشاں رہتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کمزور طبقات اور محرومین کی حمایت و پشت پناہی اور دنیا بھر کے مظلوموں کی مدد کو انقلابی ہونے کے اقدار اور اصولوں کا جز قرار دیا کہ اگر یہ پابندی اور قرآن کے لفظوں میں یہ استقامت موجود ہو تو طوفانی ہواؤں میں بھی نظام اور عہدیداران کی پیش قدمی صراط مستقیم پر اور پورے استحکام کے ساتھ ہوگی اور اگر اس کا فقدان ہو تو ہم انتہا پسندی کے شکار ہو جائیں گے اور ہر نئے واقعے پر ہمارا راستہ اور ہماری پیشرفت کی سمت تبدیل ہو جائے گی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد انقلابی ہونے کی دوسری اہم خصوصیات یعنی پیشرفت اور اعلی اہداف تک رسائی کےلئے بلند ہمتی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حالات کا رخ کچھ بھی ہو انقلاب اور عوام کے اعلی اہداف کی تکمیل کےلئے سعی و کوشش میں کوئی خلل نہیں آنے دینا چاہئے اور موجودہ پیشرفت پر اکتفا کرکے بیٹھ نہیں رہنا چاہئے۔ تساہلی اور مایوسی اس اہم صفت کے برعکس عادتیں ہیں۔ پیشرفت کا راستہ ختم ہونے والا نہیں ہے، لہذا انقلابی جذبے کے ساتھ اس راستے پر ہمیشہ آگے ہی بڑھتے رہنا چاہئے۔
انقلابی ہونے کا تیسرا معیار ہے خود مختاری کا پابند رہنا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی کی ۲۷ویں برسی پر عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اس معیار کے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تین پہلوؤں سے بحث کی اور فرمایا: سیاسی خود مختاری کا حقیقی مطلب یہ ہےکہ ہم دشمن کی گوناگوں چالوں سے فریب نہ کھائیں، بلکہ ہر حالت میں دا‏خلی، علاقائی اور بین الاقوامی خود مختاری کی حفاظت کی فکر میں لگے رہیں۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمنوں بالخصوص امریکا کی حیلہ گری اور چالوں کا اشارتا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وہ ہمیشہ دھمکیوں کا ہی سہارا نہیں لیتے، بلکہ بسا اوقات تبسم بلکہ تملق کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خود مختاری کے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے ثقافتی خود مختاری کی استثنائی اہمیت کا ذکر کیا اور زور دیکر کہا: انقلابی ہونے کا مطلب ہے اسلامی ایرانی طرز زندگی کا انتخاب اور مغرب و اغیار کی تقلید سے سختی کے ساتھ اجتناب۔ آپ نے مزید فرمایا کہ سائیبر اسپیس کے جدید وسائل در حقیقت اطلاعات کو کنٹرول کرنے اور قوموں کی ثقافتوں پر مغرب کے غلبے کے وسائل ہیں اگرچہ یہ وسائل نفع بخش بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس کےلئے ضروری ہے کہ دشمن کے غلبے اور نفوذ کی چیزوں کو ان وسائل سے الگ کر دیا جائے۔

رہبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلابی ہونے کے تیسرے معیار یعنی ملک کی ہمہ جہتی خود مختاری کے التزام کی تشریح کرتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بیان فرمایا کہ اقتصادی خود مختاری کا مطلب یہ ہےکہ خود کو عالمی برادری کے معاشی نظام میں ہضم ہو جانے سے بچایا جائے۔ امریکیوں نے ایٹمی مذاکرات کے بعد کہا: ایٹمی معاہدہ ایران کی معیشت کے عالمی برادری میں ضم ہو جانے پر منتج ہونا چاہئے۔ اس بیان کا مطلب یہ ہےکہ جو نقشہ اور سسٹم بڑے سرمایہ داروں نے جن میں بیشتر صیہونی ہیں، دنیا کے مالیاتی وسائل پر قابض ہونے کےلئے تیار کیا ہے ایران اس کے اندر ہضم ہوکر رہ جائے۔ امریکیوں نے پابندیوں کے ذریعے ایران کی معیشت کو مفلوج کر دینے کی کوشش کی تھی اور جب مذاکرات کامیاب ہو گئے تو اب وہ چاہتے ہیں کہ ایران کی معیشت عالمی اقتصاد کے ہاضمے میں جس کا سرپرست امریکا ہے، ضم ہو جائے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق استقامتی معیشت اقتصادی خود مختاری کا واحد راستہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خوشی کا مقام ہےکہ حکومت نے اس رپورٹ کے مطابق جو اس نے دی ہے، 'مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل' کے سال میں کچھ اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ ضروری ہےکہ یہ عمل اسی مضبوطی کے ساتھ جاری رہے تو یقینی طور پر عوام اس کے ثمرات دیکھیں گے۔

رہبر انقلاب نے ایسے لوگوں پر نکتہ چینی کی جو اقتصادی ترقی کو غیر ملکی سرمایہ کاری پر منحصر سمجھتے ہیں اور فرمایا: غیر ملکی سرمایہ ملک کے اندر آئے تو یہ اچھی اور ضروری چیز ہے لیکن اس سے زیادہ اہم ملک کی اندرونی صلاحیتوں کو متحرک کرنا ہے۔ ہر چیز کو غیر ملکی سرمایہ کاری پر منحصر نہیں کرنا چاہئے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد انقلابیت کے چوتھے معیار یعنی دشمن کی طرف سے حساس رہنے کے بارے میں گفتگو کی اور فرمایا: زمانہ جنگ کی طرح ہمیشہ دشمن کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنا چاہئے اور اس کے اہداف و مقاصد کی شناخت کے ساتھ بھرپور چوکسی برتتے ہوئے دشمن کی سرگرمیوں کے ممکنہ زہر کا توڑ آمادہ رکھنا چاہئے۔ آپ نے اضافہ کیا: اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران سے امریکا کی واضح، دائمی اور عمیق دشمنی کا انکار بذات خود ایک سازش ہے جس کا مقصد شیطان بزرگ کے سلسلے میں چوکسی اور ہوشیاری کو کم کرنا ہے جبکہ اسلامی انقلاب سے امریکا کی دشمنی اس کی ماہیت کا جز ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے فرمایا: توسیع پسندانہ نظام جنگ افروزی، دہشت گردی کی حمایت، حریت پسندوں کی سرکوبی، مظلوم فلسطینیوں پر مظالم، یمن کے عوام پر حملہ آور ملک کی امریکا کی جانب سے براہ راست مدد، بے گناہ عوام کے قتل عام اور ان پر ہونے والی بمباری میں شرکت کے ذریعے اپنی سرشت کو آشکارا کرتا ہے جبکہ اسلامی نظام اس سرکوبی پر خاموش اور مہر بلب نہیں رہ سکتا۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ جو شخص یا جماعت اسلام کےلئے اور اسلام کے نام پر کام کر رہی ہے اگر اس نے امریکا پر اعتماد کیا تو بہت بڑی غلطی کی مرتکب ہوگی اور اس کا نقصان ضرور اٹھائے گی۔ آپ نے مزید فرمایا: حالیہ برسوں کے دوران بھی علاقے کی بعض اسلامی تنظیموں نے 'عقل سیاسی' اور 'ٹیکٹک' کے نام پر امریکیوں سے تعاون کیا لیکن آج شیطان اکبر پر اعتماد کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ برطانیہ ملت ایران کے واقعی انتہائی خبیث دشمنوں میں ہے اور فرمایا: برطانیہ ملت ایران کے خلاف اپنی خباثتوں سے کبھی بھی باز نہیں آيا۔ اسی دشمنی کا نتیجہ ہےکہ حکومت برطانیہ کا تشہیراتی ادارہ عظیم الشان قائد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے موقع پر امریکیوں کی مدد سے جعل سازی کے ذریعے ملت ایران کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے والے قائد امام خمینی کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ 
امریکا اور برطانیہ کے ساتھ ہی منحوس صیہونی حکومت بھی ملت ایران کے دشمنوں میں ہے۔ دشمنوں کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے اور ان کی ہر تجویز کے سلسلے میں منجملہ سیاسی و اقتصادی تجاویز کے بارے میں احتیاط سے کام کرنا چاہئے، کیونکہ اگر یہ چوکسی رہے گی تو پیروی سے اجتناب کیا جائے گا اور یہی 'جہاد کبیر' ہے۔ 
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلابیت کے آخری معیار یعنی دینی و سیاسی تقوی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: دینی تقوی یعنی اسلام نے معاشرے کےلئے جن اہداف کا تعین اور مطالبہ کیا ہے ان سب کے حصول کےلئے محنت اور نگرانی کرنا۔ صرف عقلی تخمینوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ یہ اہداف دینی فرائض کا جز ہیں اور جو بھی اسلام کو دینی و سماجی میدان سے الگ رکھتا ہے، اس نے گویا دین مبین اسلام کو پہچانا ہی نہیں ہے۔ اگر دینی تقوی پیدا ہو گيا تو سیاسی تقوی بھی حاصل ہو جائےگا اور وہ انسان کو سیاسی اور انتظامی لغزشوں سے محفوظ رکھےگا۔ 
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے موقع پر عظیم الشان اجتماع سے رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں کچھ سفارشیں کیں۔ آپ نے فرمایا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک 'نمونہ کامل' کے طور پر ہمیشہ مد نظر رکھا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ 'صحیفہ امام' اور اسی طرح آپ کے وصیت نامے کا مطالعہ اور اس کی عبارتوں پر تدبر، امام خمینی کے فرمودات اور موقف سے مانوسیت، عالم ملکوت کے اس مسافر کو نمونہ عمل قرار دینے کا درست طریقہ ہے اور یہ سفارش سب کےلئے اور خاص طور پر نوجوانوں کےلئے ہے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی کی دوسری سفارش یہ تھی کہ ایٹمی مذاکرات سے حاصل ہونے والے تجربے کو ہرگز فراموش نہ کیا جائے۔ اس تجربے سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اگر امریکا کے مقابلے میں ہم نے نرمی بھی دکھائی تب بھی وہ اپنے تخریبی کردار سے باز نہیں آئےگا۔

رہبر انقلاب اسلامی کی تیسری سفارش حکومت اور ملت کے اتحاد سے متعلق تھی اور فرمایا: یہ ممکن ہےکہ کسی کو کسی دور میں حکومت کے کام پسند آئیں یا پسند نہ آئیں، اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے لیکن کسی بھی حالت میں ملت اور حکومت کا اتحاد ختم نہیں ہونا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی چوتھی سفارش یہ تھی کہ امریکا سے جاری مقابلہ آرائی کے دوران پورے محاذ پر نظر رکھی جائے۔ بیشک امریکا اس محاذ کے مرکز میں ہے تاہم اس محاذ کا پھیلاؤ مختلف جگہوں یہاں تک کہ بسا اوقات ملک کے اندر تک ہوتا ہے، لہذا اس محاذ کی عیاں اور پنہاں سبھی شاخوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پانچویں سفارش میں یہ فرمایا: دشمنوں اور اپنے درمیان کے خط فاصل کو ہمیشہ واضح اور نمایاں رکھا جائے۔ بعض داخلی حلقوں نے اس اہم ضرورت سے غافل رہنے کی وجہ سے خط فاصل کو قائم نہیں رکھا نتیجے میں یہ خط فاصل کم رنگ ہو گیا، لہذا ہمیں بہت خیال رکھنا چاہئے کہ انقلاب، امام خمینی اور ملت کے دشمنوں سے ہمارا فرق واضح رہے۔ 
عوام اور عہدیداران کےلئے رہبر انقلاب اسلامی کی چھٹی اور آخری سفارش یہ تھی کہ اللہ کی ذات پر توکل کریں، فرمایا: نصرت خداوندی کے وعدے پر پورا یقین رکھئے اور مطمئن رہئےکہ مستقبل دشمنوں کی مرضی کے برخلاف ایران کے عوام اور نوجوانوں کا ہے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے پہلے آستان امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے متولی حجت الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے اپنی تقریر میں اسلامی انقلاب کو الہی و عوامی انقلاب قرار دیا اور کہا: ہدایت الہیہ، وقار، محبت و مہربانی، اتحاد، نصرت پروردگار اور عوامی پشت پناہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اور تاریخی تحریک کی بے مثال خصوصیات ہیں اور یہ تحریک اور عظیم جد وجہد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین بر حق کے انتخاب کی برکت سے بنحو احسن جاری ہے۔ 

 

ماخذ: http://urdu.khamenei.ir

ای میل کریں