پاکستانی اہلسنت نوجوان کا پیغام: ایران اور عراق جائیں، دونوں ملکوں کیطرح پاکستان میں بھی شیعہ سنی اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔
دنیا کے مختلف ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں زائرین نے امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک پر حاضری دی اور پرسہ پیش کیا۔ عزاداری میں شریک کراچی سے آئے شہزاد احمد سے تسنیم رپورٹر نے کربلائے معلیٰ میں خصوصی بات چیت کی ہے، جو مختصراً نذر قارئین ہے۔
کراچی سے عراق تک سفر اور وہ بھی امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کےلئے، کیسا محسوس کر رہے ہیں، آپ؟
میں نے شیعوں اور کربلا کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا؛ میرے گھر والے، میرے یہاں تنہا آنے کے حق میں نہیں تھے، انہیں شاید خوف تھا کہ شیعہ قافلے کے ساتھ ملک سے دور جانا یقیناً خطرے سے خالی نہ ہوگا، سچ پوچھیں تو کہیں نہ کہیں دل میں معمولی سا خوف تھا کہ اتنی دور بالکل تنہا جا رہا ہوں، راستے بھر میں میرا کوئی ہم مسلک بھی نہ ہوگا، لیکن میرے شیعہ دوستوں نے ڈھارس بندھائی، انھوں نے مجھے حوصلہ دیا اور کہا کہ تم چل کر دیکھو تمام خدشات دور ہوجائیں گے اور بالکل ایسا ہی ہوا۔
کراچی سے سرحد، پھر وہاں سے ایران اور پھر عراق تک، سب کچھ بہت ہی زبردست رہا، تمام شیعہ زائرین نے ہر ہر جگہ میرا بہت خیال رکھا، ایسا محسوس ہوتا ہےکہ ہم سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔
عراق آتے ہوئے آپ نے ایران میں بھی قیام کیا ہوگا، ایران اور ایرانیوں کو کیسا پایا؟
جی ہاں، ہم لوگ زاہدان سے مشہد مقدس پہنچے، وہاں تین روز رہے، پھر قم میں بی بی معصومہ علیہا السلام کی زیارت کےلئے دو روز قیام کیا؛ ایران مجھے بہت پسند آیا، سڑکوں کی نفاست اور صفائی کے عمدہ نظام نے مجھے بہت متاثر کیا، لوگ فیشن کے بھی دلدادہ ہیں، محسوس نہیں ہوتا کہ یہ وہی ایران ہے جس پر امریکا نے پابندیاں لگائی ہوئی ہیں؛ آج کا ایران ترقی میں پاکستان سے کافی آگے ہے۔ مشہد میں حضرت رضا علیہ السلام اور قم میں بی بی معصومہ علیہا السلام کے مزارات کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوگئیں، کیا جاہ و جلال ہے اور اس پر صفائی اور بہترین انتظام!
ایران سے عراق تک کے سفر کے بارے میں کچھ بتائیے؟
وہاں تو کوئی مشکل نہیں ہوئی، جگہ جگہ پانی کی سبیلیں، وضو خانہ اور نماز کے کمرے تھے، انتظارگاہ بھی کافی وسیع تھی، زائرین کی کثیر تعداد کی وجہ سے امیگریشن میں کچھ دیر لگی، لیکن ہر کام بڑا مناسب اور بہترین طریقے سے انجام پا رہا تھا۔
سرزمین عراق پہنچنے کے بعد کیا جذبات تھے، اپنی دلی کیفیت ہمارے قارئین سے بھی شیئر کریں؟
عراق پہنچتے ہی ہم سب پر ایک رقت سی طاری ہوگئی، میرے خیال سے ہر آنکھ اشک بار تھی، شاید یہ زمین ہی ایسی ہے، جو انبیاء اور امام حسین علیہ السلام کی وجہ سے حزن و ملال سے پر ہے، یہی سب میرے ساتھ بھی ہوا؛ نجف اشرف میں خلیفہ چہارم حضرت علی علیہ السلام کے مزار میں داخل ہوتے ہی دل میں ایک سکون کی فضا پیدا ہوگئی، ایسا سکون جو شاید اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کیا، ہم وہاں تین روز رہے، بغداد گئے، وہاں حضرت امام موسیٰ کاظم اور امام علی نقی علیہما السلام کے مزار پر گئے، سامرہ بھی گئے، وہاں بھی دو اماموں کے مزار اقدس پر حاضری تھی، سب کچھ بہت اچھا لگا، سارا سفر بڑا آرام دہ رہا، بغداد کا تاریخی پل بھی دیکھا، بلکہ سارا عراق ہی مجھے تو تاریخی لگا۔
کربلا کو کیسا پایا، کیسی عزاداری دیکھی، کوئی روک ٹوک تو نہیں ہوئی؟
نہیں نہیں؛ کربلا والوں کا تو جواب ہی نہیں، امام حسین علیہ السلام کے غم میں سارا عراق سیاہ پوش و ماتم دار ہے، میں نے بھی امام عالی مقام کے مختلف مقامات کی زیارت کی، میں حرم میں نماز پڑھتا تھا اور وہ بھی اپنے مخصوص اسٹائل میں، لیکن کسی نے کبھی نہیں روکا، گویا اتحاد بین المسلمین کی عمدہ مثال ہے عراق؛ ایران میں بھی یہی صورتحال تھی؛ میرے خیال سے ایران اور عراق صرف عبادت کو ترجیح دیتے ہیں، طریقہ کار کو نہیں، ان کا مقصد اللہ کو پکارنا اور اس کی حمد و ثناء ہے، اسی لئے مجھے کہیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، بلکہ گھر والوں کو بھی فون پر بتایا کہ آپ سب لوگ بھی یہاں ضرور آئیں، یہاں کسی قسم کی فرقہ واریت یا مسلکی تعصب نہیں، یہ صرف ہماری اپنی سوچ ہے اور ویسے بھی امام حسین علیہ السلام جتنے شیعوں کے ہیں، اتنے ہی ہمارے بھی ہیں، بلکہ شیعہ ہمارے بھائی ہیں، جن سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔
ایران اور عراق سے کوئی خاص پیغام جو آپ کراچی لے کر جائیں گے؟
ہاں بالکل؛ میرا تمام اہلسنت برادران کو یہ پیغام ہےکہ شیعہ مسلک ہم سے کوئی خاص مختلف نہیں، ہم سب ایک ہی اللہ کو ماننے والے ہیں، ہمارا نبی ایک ہے، قران ایک ہے، پھر ہم کیوں ایک نہیں ہوتے؟ میں سب سے یہی کہوں گا کہ ایران اور عراق جائیں، وہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں، وہ لوگ ہمارا بڑا احترام کرتے ہیں، دونوں ملکوں میں شیعہ سنی کے درمیان اتحاد کی فضا قائم ہے، پاکستان میں بھی ہمیں اسی قسم کے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ ہم سب ایک قوم بن سکیں۔