محرم الحرام کے ان مقدس و متبرک ایام میں ایک لحظہ کی غفلت سے ہی دشمن فائدہ اُٹھاتا ہے اور ہمارے بےگناہ مومنین کو اپنے تخریبی نشانہ بناتا ہے۔
محرم الحرام ایک بار پھر غم و الم کی چادر تانے ہماری زندگیوں میں آیا چاہتا ہے؛ ملکی اور عالمی حالات، عراق میں داعش اور تکفیری گروہوں کو بدترین شکست، شام میں داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں کا مسلسل نقصان اور طاقت کا توازن تبدیل ہونا، اسی طرح سعودی عرب میں بعض پالیسی تبدیلیوں کے بعد اب خطرات ایک بار پھر ہمارے ملک کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
اگرچہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے جنگ جیت لی ہے اور ایسی جیتی ہےکہ کسی اور ملک نے نہیں جیتی، پھر بھی زمینی حقائق سے واقفیت رکھنے والے بہتر جانتے ہیں کہ اصل صورتحال کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت ہےکہ دہشت گردوں کو بدترین شکست ہوچکی ہے اور اب ہمارا ملک اور عوام محفوظ ہیں؟ کیا یہ مان لیا جائے کہ امن کا جو نقارہ بجایا جا رہا ہے وہ سچائی ہے؟ میرا خیال ہےکہ ایسا نہیں ہے۔
ہمارے ارباب اقتدار اور سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو بخوبی علم ہےکہ اس کے باوجود ان کی طرف سے یہ نعرے اور دعوے کہ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے، ہم اپنے ملک میں داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینگے، یا یہ کہا کہ آپریشن کی وجہ سے دہشتگرد جائے پناہ ڈھونڈنے میں لگے ہیں، سب دعوے اور پوائنٹ اسکورنگ کی باتیں ہیں، دہشت گردوں نے سانس ضرور لیا ہے، شکست تسلیم نہیں کی۔
محرم الحرام کا آغاز سب کیلئے امتحان ہے۔ ملک کے موجودہ حالات، کمزور اور الجھی ہوئی فیڈرل حکومت، دہشت گردی، تخریب کاری اور شیعیانِ علی ؑ کے ساتھ برسر اقتدار پارٹی کے رویہ اور زیادتیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عزاداری و مجالس برپا کرنے، ان میں شریک ہونے اور مجالس پڑھنے والے ذاکرین، علماء، ماتمی حضرات، شعراء، سوز خوان، اسکاؤٹس گروپس اور عام لوگوں سمیت تمام لوگوں اور سبھی طبقات پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؛ یہ سب لوگ ملکر ایک ملت، ایک قوم بنتے ہیں، ایک مکتب کے پیروکار کہلاتے ہیں اور ایک مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے سامنے آتے ہیں۔
جب ہم کوئی جلوس عزا برآمد کرتے ہیں تو اس وقت بانیان، شرکاء، خطباء، شعراء، مرد، خواتین، بچے، علماء، رہنماء، لائسنسداران، اسکاؤٹس، ورکرز، رضا کار اور کسی بھی طرح سے ان عبادات و عقیدت کے سفر میں شریک ایک ملت بن کر سامنے آ رہے ہوتے ہیں؛ موجودہ میڈیا کے دور میں کسی معمولی سے واقعہ یا بات کو محدود یا دوسروں سے چھپانا ممکن نہیں رہا، جب اپنے پرائے سبھی ہماری ایک ایک حرکت کو خاص نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، ایسے میں انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کسی کو بھی کسی ایسے کام کی اجازت نہیں دینا چاہیئے، جس سے ملت تشیع کے قومی وقار پر آنچ آئے اور کسی کو بھی اُنگلی اُٹھانے کا موقعہ ملے۔
مجلس میں پڑھنے والے خطیب یا ذاکر کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی گفتگو میں نہ تو ملت کے حوالے سے ایسے موضوعات کو چھیڑے، جن سے ملی اتحاد و وحدت اور نظم میں دراڑ آئے اور نہ ہی ایسا ماحول بنانا چاہیئے، جس سے امت کے دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مجالس سے دور ہونے کا بہانہ مل جائے۔
ہم نے دیکھا ہےکہ افراط و تفریط کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، محرم الحرام کے ان مقدس و متبرک ایام میں اس صورتحال کو قابو میں رکھنا ہوگا، اس کا فائدہ دشمن کی خدمت کے سوا کسی اور صورت میں نہیں نکل سکتا۔ ایک لحظہ کی غفلت سے ہی دشمن فائدہ اُٹھاتا ہے اور اسے موقعہ مل جاتا ہےکہ ہمارے بےگناہ، نہتے اور حالتِ غم سے دوچار مومنین و موالیان کو نشانہ بناکر اپنے تخریبی مقصد کو پالے۔
محرم سے قبل اکثر ان نااہل افسران کے بیانات آتے ہیں کہ تمام انتظامات مکمل ہوگئے ہیں اور اب ایک بیان کا اضافہ یہ ہوا ہےکہ اس بار غیر رجسٹرڈ جلوسوں کے نکالنے کی پابندی ہوگی؛ مگر متعصب حکمران نئے لائسنس ایشو نہیں کر رہے۔
کیا اس طرح آپ اس پیغام کو روک سکتے ہیں جو حسین ابن علی ؑ نے میدان کربلا میں اپنی عظیم قربانی پیش کر کے دیا، کیا اس پیغام کو روکا جا سکتا ہے، جو بنت نبی نے بے مقنعہ و چادر کے بازاروں اور درباروں میں اپنے بے مثال خطبات کے ذریعے پہنچایا، ایسا ہرگز ممکن نہیں۔
اب میڈیا کا دور ہے، اب عزاداری گھر گھر ہے، اب مجالس نگر نگر ہیں، اب نوحہ ماتم کی صدائیں ہر سو ہیں، اب کوئی تفریق نہیں رہ گئی، یہ سلسلہ جاری ہے، روز بڑھ رہا ہے اور بڑھتا رہےگا۔
آپ اندازہ لگائیں کہ عراق میں کروڑوں لوگوں کا اربعین امام حسین ؑ پر پہنچنا کسی مادی طاقت یا پیسے کے بل بوتے پہ ممکن ہے؟ کیا کروڑوں لوگوں کا اہتمام، انتظام کہ کسی ایک کو تکلیف نہ ہو، انسانوں سے ایسا ممکن ہے؟
میرا خیال ہےکہ فرشتے ڈیوٹیاں دیتے ہیں، کربلا فرشتوں کے نزول کا مقام ہے، جو دوست زیارات پہ بالخصوص اربعین پہ جاتے ہیں، انہیں اس کا بخوبی اندازہ ہوگا، لہذا یہاں بھی اگر کوئی عزاداری برپا کرتا ہے تو اس کا انداز ایسا ہو کہ ہر ایک اس میں بلا تفریق شریک ہوسکے اور صف عزا سے کچھ لے کے جائے اور قافلہء حسینیت میں شامل ہو جائے۔
التماس دعا؛ تحریر: ارشاد حسین ناصر