اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا: میانمار میں نسل کشی، انسانی سماج کےلئے تباہ کن ہے۔
پناہ گزینوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو انٹرویو دیتے ہوئے برمی افواج اور بدھ مت شدت پسندوں کی جانب سے روہنگیا کی اقلیت پر مشتمل مسلمانوں پر گولی چلانے اور ان کے چنگل میں اسیر قیدیوں کے سر قلم کرنے کا انکشاف کیا۔
برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کے مطابق، عینی شاہدین کے مطابق برمی افواج اور میانمار عسکریت پسندوں نے ظلم کی نئی داستان رقم کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے سینکڑوں معصوم بچوں کا سر قلم کیا ہے اور بہت سے دوسرے افراد کو زندہ جلا دیا ہے اور اس طرح میانمار کی شورش زدہ مغربی ریاست راخین میں وحشیانہ قتل اور نسل کشی کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
انگلینڈ کے وزیر خارجہ جانسون نے تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ میانمار کے ناروا سلوک کو میانمار کےلئے "ذلت کا مقام" قرار دیا ہے۔
ترکی صدر اردوگان نے میانمار کی افواج پر نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہےکہ جن لوگوں نے میانمار میں مسلمانوں کے قتل پر اپنی آنکھیں بند کردی ہیں، وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خبردار کرتے ہوئے اس نسل کشی کو انسانی سماج کےلئے تباہ کن قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کا کہنا ہے صوبہ راخین میں روہنگیائی مسلمانوں پر انتہا پسند بودھسٹوں اور فوج کے حملوں کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان میانمار سے بھاکنے پر مجبور ہیں تاہم بنگلہ دیش میں داخل ہونے کےلئے حالات ابھی تک فراہم نہیں ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کی جانب سے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے معلوم ہوتا ہےکہ روہنگیا کے ایک مسلم گاؤں (چین خار لی)، میں 700 گھروں کو نذر آتش کیا چکا ہے۔
میانمار حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مبصرین اور صحافیوں کی متاثرہ علاقوں تک رسائی پر پابندی عائد کردی ہے۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد ایک ملین کے قریب ہے وہ مغربی میانمار کے صوبہ راخین میں آباد ہیں اور یہ لوگ ہر طرح کے شہری حقوق سے محروم ہیں اور میانمار حکومت انہیں اپنے ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتی اور وہاں کی حکومت کا اصرار ہےکہ انہیں بنگلہ دیش واپس جانا چاہئے۔
2012 سے اب تک مغربی میانمار کی ریاست راخین میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر نسلی تعصب کا سامنا ہے اور میانمار کی مسلح افواج اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے مسلسل حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔