امام خمینی کا بھی یہی عقیدہ ہےکہ وہ ہر اسلامی مسئلے کو اپنا مسئلہ تصور کرتے ہیں۔
سابق عبوری حکومت کے وزیر خارجہ ابراہیم یزدی نے ایران عراق جنگ کے آغاز سے پہلے یکم ستمبر 1979 کو کیوبا کے دارالحکومت ہاوانا میں غیر وابستہ ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر عراقی صدر صدام حسین سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کے 35 برس بعد، یزدی نے صدام حسين کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے متن کو پہلی بار "ایرانی تاریخ" ویب سائٹ کے اختیار میں قرار دیا ہے:
سلام اور احوال پرسی کے بعد؛
سابق ایرانی وزیر خارجہ، یزدی: 1975 کو آپ نے ایران کا باقاعدہ دورہ کیا اور وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مشاہدے کےلئے پھر سے آپ کو دورے کی دعوت دی جاتی ہے۔
معدوم عراقی صدر، صدام حسین: یہ میری بھی خواہش ہے، کیونکہ ہمیں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ صورتحال کو واضح کرنا ہے۔
يزدی: آپ کے موقف کے بارے میں جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی، اس اتفاق کے پیش نظر کہ ہم مسلمان ہونے کی بنا پر دوستانہ تعلقات کے باوجود ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ایک گھر کے افراد کے درمیان بعض امور میں اختلاف رائے پایا جانا معمول کے مطابق ہے، تاہم آپس میں مفاہمت کا فقدان معمول کے برخلاف ہے؛ اگر اس ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ آپ کے ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺤﻔﻈﺎت ﮨﯿﮟ تو ہم سننے کےلئے تیار ہیں۔
صدام: کسی بھی تحریک کے آغاز میں اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑھتا ہے تاہم یہ بات ثابت ہوگئی ہےکہ آپ کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مکمل کنٹرول حاصل ہے اور اخبارات اور جرائد پر قابو پانے کی اچھی خاصی مہارت حاصل ہے؛ متعدد بار آپ کے اخبارات کے پہلے صفحے پر نمایاں طور پر عراقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ اس کے مقابلے ہماری جانب سے ہرگز ایسا کام انجام نہیں دیا گیا ہم اس طرح کے موقف کی توقع نہیں رکھتے تھے۔
يزدی: لیکن کرد پناہ گزینوں کے کیمپوں کی موجودگی کے بارے میں کیا جواز پیش کریں گے؟
صدام: ہم نے خواتین اور بچوں کو پناہ دی ہے جو ایک انسانی عمل ہے؛ آپ خطے میں اسرائیلی نقشے کے بارے میں بات کرتے ہیں، جبکہ کرد سربراہان، آپ کے ہاں پناہ لئے ہوئے ہیں۔
يزدی: کن کیطرف اشارہ کررہے ہیں؟
صدام: ادريس بارزانی، مسعود بارزانی، جلال طالبانی و غیرہ
يزدی: ان میں سے بعض تو عراقی ائیرلائن کے ذریعے عراق ہی سے آئے تھے اور کیونکہ ایران اور عراق کے دونوں طرف کرد قوم بستی ہے لہذا ہمیں دونوں طرف کے حقوق کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
صدام: آپ کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے ہاں رونما ہونے والے انقلاب کی تعریف نہیں کی جبکہ پروف سے ظاہر ہوتا ہےکہ ہم نے ایران کے انقلاب اور نئی حکومت کو تسلیم کیا ہے۔
يزدی: یہ اقرار کافی نہیں ہے کیونکہ امریکیوں نے بھی اس طرح کا اعتراف کیا ہے۔
صدام: آپ کے ہاں رونما ہونے والا انقلاب آپ ہی کےلئے ہے، ہمارے اور عرب ممالک کی عوام کےلئے نہیں۔ اگر آپ نے 2500 سالہ شاہی نظام کے خلاف قیام کرتے ہوئے اسے سرنگوں کیا ہے تو یہ دیر سے اٹھائے جانے والے اقدام کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد عوام کو آزاد چھوڑیں اور لوگوں سے تعریف کی توقع مت رکھیں؛ جبکہ تعریف کرنے والوں میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے آپ کو صدمہ پہنچایا ہے لیکن ہم آپ کے بھائی ہونے کے عنوان سے آپ کی بھلائی چاہتے ہیں اس شرط کے ساتھ کے خطے میں موجود عرب ریاستوں کے ساتھ آپ کے تعلقات برادرانہ اصولوں پر قائم ہو۔
يزدی: ہمیں اپنے عراقی بھائیوں سے اس سے کہیں زیادہ توقع تھی۔ استکباری ایجنڈ اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ آپ پر حملہ آور ہونے والے کے خلاف آپ کو اقدام کرنا چاہئے، خوزستان اور کردستان کے مسئلے کی وجہ سے دو مسلم اور پڑوسی ریاستوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
صدام: ہم سب کو چاہئے کہ عراقیوں اور ایرانیوں سے درخواست کریں کہ اپنی گفتار میں صداقت اور صراحت سے کام لیں، عراقی حکومت سے آپ کی کیا توقعات ہیں؟
يزدی: یہاں میں آپ سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ سعودی لبریشن فرنٹ کی حمایت اور خوزستان کو ہتھیار بھیجنے سے گریز کریں۔
صدام: براہ مہربانی انتظار کریں، ہم ایران کے انقلاب سے بخوبی آگاہ ہیں، آپ اور انجینئر بازرگان کی شخصیت سے ہم اچھی طرح واقف ہیں، ہمیں واضح کریں کہ عراق کے حوالے سے آپ کس طرح کی ذمہ داریاں، نبھانے کےلئے تیار ہیں؟
ابراہیم يزدی: اگر ہم کچھ نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہےکہ یا ہم انجام نہیں دینا چاہتے یا پھر ہمارے درمیان کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو ہمارے درمیان اختلافات کو ہوا دینا چاہتے ہیں؛ آپ ایران لوٹ جائے اور امام اور دیگر ذمہ دار افراد سے رابطہ کرکے اطمینان بخش جوابات حاصل کریں، کیونکہ اس وقت ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے اور مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔
صدام نے گفتگو کے دوران خلیج فارس میں تین ایرانی جزیروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: شاہ کے دور میں ان جزائر پر قبضہ جمالیا گیا ہے اور یہ عرب امارات کی ملکیت ہے اور ایران کو ان جزیروں سے دستبردار ہوکر عرب امارات کو واپس لوٹا دینا چاہئے۔
میں نے کہا: خلیج فارس میں واقع تین جزیروں کے معاملے میں ہم آپ سے ہرگز بات چیت کرنے کےلئے تیار نہیں، کیونکہ اس کا عراق سے کوئی ربط نہیں۔
صدام نے کہا: کیا آپ بعث پارٹی کے نظریات سے واقف نہیں ہیں؟ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ کسی بھی عربی ریاست کا مسئلہ گویا بعث پارٹی کا ہی معاملہ ہے۔
میں نے پوچھا: بعث پارٹی کے قیام کو کتنا عرصہ ہوا؟
صدام نے غرور کے ساتھ کہا: تقریبا ۵۰ سال
میں نے کہا: بعث پارٹی اپنی ۵۰ سالہ تاریخ میں ہر عربی مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہے جبکہ حوزہ علمیہ نجف اشرف کی تاریخ 900 سال پرانی ہے اور بعثی پارٹی کے منطق کی بنا پر امام خمینی کا بھی عقیدہ یہیں ہےکہ وہ ہر اسلامی مسئلے کو اپنا مسئلہ تصور کرتے ہیں، اب اگر آپ اس چیلنج میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو اس کے نتائج کے بارے میں آپ کو ضرور سوچنا ہوگا۔
حوالہ: ایرانی تاریخ ویب سائٹ