آیت اللہ سیستانی  کی نوجوانوں کو خاص نصیحتیں

آیت اللہ سیستانی کی نوجوانوں کو خاص نصیحتیں

تمام سعادتوں اور بھلائیوں کی بنیاد فضیلتوں پر رکھی گئی ہے اور تمام برائیوں کی اساس رذیلہ صفات کے علاوہ کچھ نہیں۔

جماران کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت الله العظمی سیستانی [دام ظلہ] نے بعض جوانوں کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں، جوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے بہت سے اہم نکات کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

 

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمین و الصلاه و السلام علی محمد و آله الطاهرین

السلام علیکم و رحمه الله و برکاته

میں آپ جوانوں کو آٹھ اہم باتوں کی سفارش کرتا ہوں کہ یہ باتیں ایسی ہیں جس پر عمل کرنے کی صورت میں انسان کی دنیا و آخرت دونوں سدھر سکتی ہے۔  

۱- خدا اور آخرت پر ایمان اور اعتقاد:

انسان اپنی عالمانہ سوچ کے نتیجے میں اس بات سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے کہ اس کائنات کی ہر مخلوق کے سر پر ایک عظیم خالق کا سایہ ہے اور حقیقت میں انسانی زندگی کا دورانیہ، آزمایش اور امتحان کا مرقع ہے جس میں اچھے اور نیکوکار انسانوں کو تشخیص دینا مقصود ہے۔ لہذا جو لوگ خدا کے وجود اور دنیائے آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ حقیقت میں زندگی کے مفہوم اور اس کے افق سے غافل ہونے کے ساتھ زندگی کے اسرار اور رموز سے بھی ناواقف ہیں۔

۲- اچھے اخلاق سے آراستہ ہونا:

اچھا اخلاق؛ حکمت و تفکر، رواداری و تواضع، عاقبت اندیشی، صبر اور تحمل جیسی بہت سی اچھی اور نیک صفات اور کمالات کا سر چشمہ ہے۔ اسی لئے اچھے اخلاق کا شمار، دنیا اور آخرت کی زندگی کو سعادتمند بنانے والے اہم عناصر میں ہوتا ہے اور جس دن انسان کے اعمال کو ایمان کی کسوٹی پر پرکھا جائےگا اس دن اللہ سے زیادہ قریب شخص وہی ہوگا جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے اور اس دن اس کے نیک اعمال کا پلٹرا بھاری ہوگا۔ بنابر این، تمام جوانوں کو چاہئے کہ اپنے والدین، گھر والوں، دوستوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔

۳- ایک پروفیشنل پیشہ کےلئے جد و جہد:

زندگی میں ایک پروفیشنل پیشے کو اپنانے کےلئے کوشش کرنا انسانی حیات میں بہت سے فوائد کو لےکر آتا ہے، ایک پروفیشنل پیشے کے انتخاب سے جہاں انسان اپنے گھر والوں کے مالی اخراجات کو حلال طریقے سے پورا کرسکتا ہے وہی معاشرے کی افادیت میں حصہ لیتے ہوئے اچھے کاموں کی انجام دہی میں پیش قدم بھی ہوسکتا ہے اور وہ اپنی زندگی کے فراز و نشیب میں اسی پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں کی وجہ سے بہت سے مفید تجربات بھی حاصل کرسکتا ہے جو اس کےلئے خیر اور برکت کاباعث ہیں۔

۴- اچھے اخلاقی دستورات پر عمل اور برائیوں سے اجتناب:

تمام سعادتوں اور بھلائیوں کی بنیاد فضیلتوں پر رکھی گئی ہے اور تمام برائیوں کی اساس رذیلہ صفات کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں لڑکیوں کو عفت اور پاکدامنی کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ عورت اپنی ظرافت وجودی کے سبب کسی بھی وقت غفلت کا شکار ہوسکتی ہے۔ اسی لئے انہیں عفت اور پاکدامنی کا دامن تھامے رکھنا ہوگا، وہ عورت کس قدر لائق تحسین ہے جو اپنی رفتار میں متانت کو اپناتے ہوئے زندگی کے تمام مراحل میں عفت اور پاکدامنی کو اپنا شعار بناکر تعلیمی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھتی ہے۔

۵-  شادی میں بلاوجہ تاخیر سے گریز اور خاندان کی تشکیل پر توجہ:

ازدواجی زندگی کے ذریعے خاندان کی تشکیل، جہاں لطف اندوزی کا باعث بنتی ہے وہی انسان کے اندر احساس مسئولیت کو بھی اجاگر کرتی ہے اور انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو شیرین بنانے کےلئے تمام تر خدا دادی توانائیوں اور مہارتوں کو بروئے کار لائے، خاندان کی تشکیل سے احساس ذمہ داری میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ غیر اخلاقی کاموں سے بچنے کے شرائط بھی مہیا ہوتے ہیں، اسی لئے لڑکیوں اور ان کے والدین کو چاہئے کہ وہ روزگار کو خانوادے کی تشکیل پر ترجیح دینے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ شادی سنت موکد ہے اور والدین کےلئے بلاوجہ اپنی بیٹیوں کو شادی سے روکنا جائز نہیں۔

۶- لوگوں کی مدد، یتیموں، بیواوں اور محروموں کے ساتھ نیک برتاو

اور فلاحی کاموں کےلئے کوشش:

یہ کام جہاں انسان کے ایمان اور تہذیب نفس میں اضافے کا باعث بنتا ہے وہی انسان کو دی جانے والی نعمتوں کی زکات کے زمرے میں بھی آتا ہے، پیغمبر اسلام (صلی‌الله ‌علیه ‌وآله) نے فرمایا: "انسان اس وقت تک کمال ایمان کو حاصل نہیں کرسکتا جب تک وہ دوسروں کےلئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور جو اپنے لئے نہیں چاہتا وہ دوسروں کےلئے بھی ناپسند کرے"۔

۷- اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نبھانا:

جن افراد کے کاندھوں پر دوسروں کے امور کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کی کوشش کریں، چاہے ان کا تعلق اس کے خاندان سے ہو یا پھر معاشرے کی حالات سے، بہر صورت اسے ان امور کو اچھی طرح نبھانا ہے، نیز خاندان اور معاشرے کی حفاظت کےلئے ہر طرح کے تشدد سے اجتناب کرنا ضروری ہے حتی ایسے معاملات میں بھی جہاں سختی  سے پیش آنا آپ کی نظر میں ضروری ہو۔

کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے عمل کے جواز میں، دین اور مذہب کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرے کیونکہ حقیقی دین کی بنیاد عدل و انصاف، احسان اور نیکی اور امانت داری جیسے امور پر رکھی گئی ہے۔

8- زندگی کے تمام مراحل میں تعلیم اور حصول معرفت کےلئے کوشش:

انسان کو اپنے کاموں کی عاقبت کے بارے میں سوچنا چاہئے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھتے ہوئے حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے تاکہ آئے دن اس کی معرفت اور اس کے تجربوں میں اضافہ ہوتا جائے کیونکہ انسان کبھی بھی علم اور مہارت کی شناخت سے بے نیاز نہیں۔ اسی لئے خدا نے اپنے رسول کو مخاطب کرکے فرمایا: ﴿وَ قُل رَبّ زِدنِی عِلماً﴾."اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے۔"

یہ آٹھ نصیحتیں- جو یاد دہانی کے سوا کچھ نہیں- صحیح زندگی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے اور انسان انہی اصولوں کی یاد دہانی کے سائے میں حقیقت کے نور، فطرت کی شفافیت، عقل کی شہادت اور زندگی کے تجربوں کو حاصل کرسکتا ہے اور الہی آیات اور اہل بصیرت کے موعظوں سے بھی یہی بات آشکار ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: ﴿فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّهٍ خَیْراً یَرَهُ * وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّهٍ شَرًّا یَرَهُ﴾؛ ” جو ذرہ برابر نیکی کرےگا وہ اس کو پالےگا اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرےگا اسے بھی پالےگا۔

آخر میں دعاگوں ہوں کہ خدا ان تمام کاموں میں آپ کو کامیابی عطا کرے جن سے آپ کی دنیوی اور اخروی حیات کی سعادت وابستہ ہے اور تمام کامیابیوں کی چابی خدا کے ہاتھ میں ہے۔

۲۸ ربیع‌الاول ۱۴۳۷ هجری قمری

حوزہ علمیہ نجف اشرف


ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ


ای میل کریں