شاید ہی کوئی ایسی تاویلی اور عرفانی کتاب ہوگی جس کی ابتدا میں یا مختلف مناسبتوں سے اس بات کی جانب اشارہ نہ کیا گیا ہو کہ قرآن کا ظاہر ہے اور باطن۔ عرفانی تاویلات کا رخ باطن کی طرف ہوتا ہے۔ عرفاء ظاہر کے بجائے قرآن کے باطنی معانی کی جستجو کرتے ہیں ۔ البتہ واحد چیز جو ان کی گفتگو اور تالیفات سے ہمارے ہاتھ آتی ہے، یہ ہے کہ تاویل کا اصول ومبنا قرآن کے پیغامات کی درجہ بندی ہے وگرنہ عرفاء نے صراحت کے ساتھ یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا اصول ومبنیٰ ہے۔
ظاہر وباطن ہونا چند جہتوں سے امام خمینی(ره) کے مدنظر ہے:
ایک اعتبار سے قرآن شریف کی حقیقت حضرت واحدیت میں شئون ذاتیہ اور حقائق علمی میں سے ہے۔اس بنا پر اگر خداوند ظاہر وباطن رکھتا ہے (حدید ؍۳) تو کتاب الٰہی بھی ظاہر وباطن رکھتی ہے جیسا کہ اس نے شئون ربوبیت کی معرفت میں حق کو علو اعلا اور دنو ادنیٰ میں مقام جامعیت کے ساتھ پہچنوایا ہے۔اور قرآن کریم کو بھی ظاہر وباطن کا حامل اور مختلف درجات کا جامع قرار دیا ہے۔ مقام برہان میں اس طرح استدلال کیا ہے کہ چونکہ یہ کتاب شریف تمام بنی نوع انسان کیلئے سعادت ہے اور چونکہ بنی نوع انسان کے قلوب کے حالات، عادات، اخلاق، زمان ومکان کے لحاظ سے مختلف ہے، اس لیے سب کو ایک ہی طریقے سے دعوت نہیں دی جاسکتی لہذا قرآن دو جہات ظاہر وباطن اور مراتب کے ساتھ نازل ہوا ہے اس لحاظ سے یہ کتاب شریف مختلف اقسام، متعدد فنون اور طریقوں سے لوگوں کو دعوت دیتی ہے۔(آداب الصلاۃ، ص ۱۸۷)
اسی لیے امام خمینی(ره) دعائے سحر کی شرح میں تاکید کرتے ہیں :
’’گمان نہ کر کہ آسمانی کتاب اور اﷲ کی طرف سے نازل شدہ قرآن یہی ظاہری شکل وصورت ہے۔ جان لے! اس کی ظاہری صورت پر توقف کرنا اور عالم ظاہر کی حدود میں رک جانا اور اس کے باطن اور مغز تک نہ جانا ہلاکت اور بربادی کا موجب اور تمام جہالتوں کی جڑ اور تمام نبوتوں اور ولایتوں کے انکار کی بنیاد ہے‘‘ (شرح دعائے سحر، ص ۵۹)
دوسری جانب چونکہ اہل بیت(ع) سے نقل شدہ روایات کے مطابق قرآن کا ظاہر اور باطن حد اور مطلع ہے، اس لیے امام خمینی(رہ) اور دوسرے عرفاء نے اس اصول ومبنا کی تاکید ہے۔(شرح دعائے سحر، ص ۳۸)
بنابریں ، یہ اصول قرآن اور روایات سے لیا گیا ہے اور تمام عرفاء نے اس کی تاکید کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی(ره) دعائے سحر کی شرح میں تہذیب نفس، درجات تک پہنچنے، شرح صدر برائے ارواح معانی، بطون کے ادراک، راز کے انکشاف، معانی کے ظاہر سے تجرید کیلئے دل کے کھلنے سے متعلق مقدمہ ذکر کرنے کے بعد تاویل کے ساتھ اس اصول کے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
’’اس مبارک درخت اور گوارا چشمے سے سالکین کے دلوں کیلئے ابواب تاویل کھلتے ہیں اور علمائے راسخین کے شہر میں داخل ہونے کا امکان فراہم ہوتا ہے اور حس کے ذریعے کتاب الٰہی کی منازل کی جانب سفر کا سامان میسر ہوتا ہے، کیونکہ قرآن کیلئے منازل، مراحل، ظواہر اور بواطن ہیں ‘‘۔( شرح دعائے سحر، ص ۳۸)