شریعت،طریقت اور حقیقت یہ تین ایسی اصطلاحیں ہیں جو عرفان اور عرفاء کے درمیان عام ہیں انسان کو اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے ان تین مرحلوں شریعت،طریقت اور حقیقت سے گزرنا پڑتا ہے ۔
شریعت کے دو معنی ہیں ایک دین کے معنی میں ہے اور دوسرا فقہی احکام اور فروع دین کے معنی میں ہے۔
طریقت لغت میں راستہ کے معنی میں ہے لیکن اس کے اصطلاحی معنی عرفا اور متلاشیوں کا خدا تک پہنچے کا راستہ اور طریقہ ہے جس کے لئے وہ کچھ منزلوں کو طے کر کے حقیقت تک پہنچتے ہیں۔
حقیقت لغت میں حق سے لی گی ہے جو باطل اور مجازی معنی کے مقابلہ میں استعمال ہوتی ہے لیکن عرفاء کی اصطلاح میں سیر وسلوک کا وہی آخری ہدف جو قرب الہی ہے۔
مثال کے طور پر کہا جاسکتا ہے ۔طبابت کا علم سیکھنے کا نام شریعت ہے دوائی کھانا طریقت ہے اور ہمشیہ کے لئے صحت مند ہو جانا حقیقت ہے۔
امام خمینی رہ اپنی عرفانی تالیفات میں شریعت کے بارے میں تاکید کرتے ہوے فرماتے ہیں:
کتاب اور سنت کے ظواہر کا علم بہترین علوم میں سے ہے یہ علم ظاہری اعمال،شرعی قوانین،الہی قوانین،حکمت عملی اور احکام الہی کی بنیاد ہیں اور یہ الہی اسرار ،غیبی انوار اور تجلیات خداوند کی طرف سیدھا راستہ ہیں اور اگر ظاہری علم نہ ہو تو سالک اور مجاہد اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکتے۔
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: طریقت اور حقیقت صرف شریعت کے راستے سے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ ظاہر باطن کا راستہ ہے بلکہ ظاہر باطن سے جدا نہیں جو کوئی معتقد ہے کہ باطن ظاہری اعمال اور تکالیف الہی کی پیروی کرنے سے حاصل نہیں ہوتا انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ گویا علم ظاہر کی جو اہمیت اسے اُتنی اہمیت نہیں دی گی اور اگر کوئی چاہتا ہے کہ باطن تک ظاہر کے علاوہ پہنچے ایسا شخص بعض صوفیوں کی طرح ہے جن کے پاس اپنے پروردگار کے لئے کوئی دلیل نہیں۔