روایت " لولا فاطمۃ لما خلقتکما " کے بارے میں وضاحت

اس روایت کو " جنۃ العاصمۃ " کے مولف نے " کشف اللئالی " تالیف صالح بن عبد الوھاب عرندس سے نقل کیا ہے۔ یہ روایت " مستدرک سفینۃ البحار " میں " مجمع النورین " تالیف مرحوم فاضل مرندی سے نقل کی گئی ہے اور " ضیاء العالمین " کے مولف جو صاحب جواہر کے نانا ہیں، نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔

حضرت فاطمہ (س) کے مقام و منزلت کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ ان روایات میں ایسے مقامات کی طرف اشارہ ہوا ہے جو صرف حضرت فاطمہ (س) کےلئے منحصر طور پر ذکر ہوئے ہیں اور جو مقامات عام انسان کےلئے حیرت انگیز ہیں۔

روایات کی بناء پر لغت میں " فاطمۃ " سے مراد وہ ذات ہے جس کی معرفت کو سمجھنا عام لوگوں کی طاقت سے مافوق ہے اور لوگ فاطمہ کی معرفت کو سجمھنے سے قاصر ہیں؛ گویا خداوند متعال کا مخفی راز فاطمۃ (س) میں ہی پوشیدہ ہے اور خدا کو پہچاننے کےلئے (حق معرفتہ) حضرت فاطمہ (س) کی پہچان سے جڑا ہوا ہے اسی طرح فاطمیت غیر قابل شناخت صفت، حجاب میں ہونے اور حرم الہی میں مکین رہنے سے متلازم ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ (س)  نہ ہی کوئی پیغمبر تھیں اور نہ ہی امام؛ پس جو چیز سبب بنی کہ اس گوہر کو یہ رفیع مقام عطا ہو وہ ظاہری نبوت اور امامت کے علاوہ کوئی اور چیز ہے؛ اس قدسی گوہر کا نام جو بھی رکھا جائے یہ بات یقینی ہےکہ اس کی معرفت کی گہرائی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، لیکن عبادات کی دنیا میں اس کا نام گوہر عبادت رکھا جاسکتا ہے؛ عبد ہونے کے واقعی معنی، یعنی اپنا کچھ نہ ہونا اور پورا خدائی ہونا، عبد جو خدا کا آئینہ ہے۔ اس لحاظ سے امام صادق (ع) عبودیت کی حقیقت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: "عبودیت ایک ایسا جوہر ہےکہ جس کی گہرائی ربوبیت ہے"۔ یہ گوہر انسان کا وہی گمشدہ گوہر ہے اور وہی عرفان کا سر الاسرار ہے۔

جو کچھ عام لوگوں کےلئے واضح ہوتا ہے وہ نبوت کا مقام ہے اور  امامت کا مقام دین کے کمال کے طور پر نبوت کے ذریعے ابلاغ ہوتا ہے جس کو صرف خاص لوگ سمجھ لیتے ہیں اور جو کچھ امامت کے مقام سے دوسروں کےلئے غیر قابل شناخت رہتا ہے وہی وجود فاطمہ (س) کا راز ہے جو الہی عصمت اور غیرت کے نقاب میں مخفی ہے۔

پس امامت نبوت کا سر نہاں ہے اور عبودیت کا جوہر امامت کا سر نھاں ہے۔

اس کے ساتھ امامت محمدی (ص) کا مقام، امامت علی (ع) میں اور مقام عبودیت محمدی (ص)، حضرت فاطمہ (س) میں متجلی ہوا ہے اور اس کے اصلی تشخص کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اس طرح حضرت محمد (ص) کی حقیقت وجودی کے ظاہری سیر کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہےکہ عبودیت کا مقام نبوت اور امامت سے مافوق ہے اور اس لئے جو کچھ حضرت فاطمۃ (س) میں متحقق ہوا ہے وہ ایک انسان کےلئے سب سے انتھائی مقام ہےکہ جو نبوت اور امامت کا مقصد شمار کیا جاتاہے۔

حدیث قدسی فرمایا: " لولاک لما خلقت الافلاک و لولا علی لما خلقتک و لولا فاطمۃ لما خلقتکما "۔

" اگر فاطمہ نہ ہوتی تو تم دونوں کو خلق نہیں کرتا " اس کے سیاق و سباق کے تحت، اس مقام کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ اگرچہ وہ مقام آنحضرت (ص) میں بدرجہ اتم موجود ہے لیکن فاطمۃ زہراء (س) کی اصلی خصوصیت یہی ہے اور وہ مقام عبودیت ہے۔

اگر عبودیت کا مقام نہ ہوتا تو امامت اور نبوت بھی مکمل نہ ہوتے اور یہ دوںوں اپنے مقصد کو نہ پہنچتے کیونکہ نبوت اور امامت، عبد مطلق کے مقام تک پہنچنے کا مقدمہ ہے۔ البتہ یہ مقام خود آنحضرت (ص) اور حضرت علی (ع) میں موجود تھا لیکن حضرت فاطمہ (س) میں صرف یہی مقام متجلی ہوا ہے اسی لئے اس روایت میں حضرت فاطمہ (س) پر تکیہ کیا گیا ہے جبکہ ان کی ذات پاک میں کسی طرح کا تکثر متصور نہیں ہے۔

پس یہ بات مسلم ہےکہ عبودیت کا مقام اپنے کمال میں اگر کسی میں متحقق ہوگا تو وہ نبوت اور امامت سے بھی بڑھ کر ہے۔ خود نبی اور امام بھی مقام عبودیت کے عنوان سے اس مقام پر ہہنچ گئے ہیں اور انہوں نے امامت اور نبوت کی ذمہ داری اٹھالی ہے، در حالیکہ خداوند متعال کے پاس سب سے بڑا مقام جو انہیں حاصل ہے، وہ عبودیت کا مقام ہے۔

بہ الفاظ دیگر، نبوت اور امامت کا مقام، لوگوں کی بنسبت ہے جبکہ عبودیت کا مقام، خدا کی بنسبت؛ پس عبودیت، نبوت اور امامت سے بلند تر ہے۔

islamquest.net

ای میل کریں