امام خمینی: ارکان اسلامی پارلیمنٹ، عرف کے نمائندے اور مصلحت کی تشخیص کا اصلی مرجع ہے۔
مجلس شورائے اسلامی کے دور اول کو آغاز ہوئے ایک سال چار مہینے گزر رہا تھا؛ پارلیمنٹ اور حکومتی اداروں کی ہماہنگی کےتحت، مجلس نے بعض اہم قوانین منظور کیا لیکن شورائے نگہبان نے غیر شرعی اور نامنظور قرار دےکر مسترد کردیا۔
آیت اللہ شیخ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کا کہنا تھا: حضرت امام کےساتھ، مصلحت کے حوالہ سے گفتگو اور ایک خط میں گزارش کی کہ آپ « ولی فقیه » کے عنوان سے مفاسد کےخلاف اور مصلحتوں کی خاطر ان قوانین پر عملدر آمد کو یقینی بنانے کےلئے اقدام کریں۔
امام خمینی نے جواب میں فرمایا: جب تک مصلحت کا موضوع باقی ہے، پارلیمنٹ کی اکثریت اس بات کا مستحق ہےکہ حکم ثانوی کےتحت، ابتدائی احکامات کو وقتی طورپر معطل کریں۔
حوزہ علمیہ کی بعض شخصیات اور آیت اللہ العظمی سید محمد رضا گلپائیگانی نے اپنے حوزوی درس خارج میں امام خمینی کے اس حکم پر شدت سے اعتراض کیں!!
ادھر امام خمینی کے ساتھ شورائے نگہبان کے اراکین کی نشست میں فقہاء ارکان نے شورائے نگہبان کے اختیارات میں کمی اور اسلامی پارلیمنٹ کے اختیارات میں اضافے پر غیر متوقع موقف اختیار کیا۔
امام خمینی نے فرمایا: ایسی کوئی بات نہیں کہ میں نے ایک سے اختیار سلب اور دوسرے کو توسیع دیا ہو بلکہ موضوع کی تشخیص، مجلس کا کام ہے اور حکم کے بیان کی ذمہ داری شورائے نگهبان پر عائد ہوتی ہے"۔
امام خمینی نے ارکان اسلامی پارلیمنٹ کو عرف کے نمائندے اور مصلحت کی تشخیص کے اصلی مرجع گردانا؛ آپ نے فرمایا: " مذکورہ اختیارات موضوع کی تشخیص سے متعلق ہے جو عرف اور شریعت دونوں کی نظر میں اس کی تشخیص عرف پر عائد ہوتی ہے اور مجلس شورائے اسلامی میں موجود اراکین، عرف کی نمائندہ جماعت ہے ... تاہم قانونی اعتبار سے شورائے نگهبان، موضوعات کی تشخیص کا حق نہیں رکھتی"۔
(ماخذ: صحیفه امام، ج15، ص312)
اختلافات کی تشدید پر حجت الاسلام سید احمد خمینی، آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی اور بعض دیگر شخصیات نے امام خمینی کے نام خط میں گزارش کی کہ قوانین کی منظوری اور حکومت کی پالیسی کو سرکاری وزارتوں سے لےکر حکومت اور پارلیمنٹ تک، ان اداروں کی تحقیقاتی کمیشن کی کارشناسی وضاحت کےساتھ گزارا جائے اور اس ضمن میں تشخیص مصلحت نظام کونسل کے قیام کےلئے جد و جہد کیا جائے۔
امام کی سیاسی فقہ کی منطق میں عرف اور اس کے اختیارات، جمہور اور نظام کی مصلحت، جمہوریت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایران کے سیاسی نظام کی قانونی تشکیل کو سمجھنے میں اسٹریٹجک اور فیصلہ کن مسئلے کی حیثیت رکھتی ہے۔