مجمع تشخیص مصلحت نظام کے بارے میں ایک راز

مجمع تشخیص مصلحت نظام کے بارے میں ایک راز

شورائے نگہبان کے بعض فقہاء نے امام خمینی کی شاگردی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے حوزہ علمیہ میں موجود مراجع اور ناقدین کی نمائندگی کو اپنا وظیفہ سمجھا!! (حصہ ۱)

شورائے نگہبان کے بعض فقہاء نے امام خمینی کی شاگردی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے حوزہ علمیہ میں موجود مراجع اور ناقدین کی نمائندگی کو اپنا وظیفہ سمجھا!!

رات کے ایک بج چکے تھے اور بہت سے داخلی اور خارجی ذرائع ابلاغ اور ٹی وی چینلز میں ہاشمی کی وفات کے بعد، ہاشمی اور ایران سے متعلق مختلف تجزیے اور تبصرے پیش کئے جا رہے تھے۔

سٹاف رائٹر کی صورتحال 2 بجے دوپہر کی مانند تھی؛ بعض احباب، حسینیہ جماران میں اور بعض دیگر، سٹاف رائٹر میں آرام کرنے کی تیاری میں لگے ہوئے تھے؛ اخبار کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہاشمی کی اچانک وفات پر، ملک بھر میں لوگوں کو گلہ اور شکوہ ہے؛ اس دوران میں نے آغاز تحریر کیا:

بسم­الله الرحمن الرحیم

آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی، ایران میں مصلحت کے حوالے سے بحث و گفتگو کا نقطہ آغاز تھے اور جس قدر اسلامی ایران میں ان کی سیاست نامکمل رہی اسی انداز میں مصلحت بھی مصلحتوں کا شکار رہی!!

گھنٹوں پر محیط گفتگو کے طویل دورانئے میں ہم نے انقلاب کے آغاز سے حال تک، مصلحت کی تمام داستان پر نظر دوڑائی اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ نے داستان کے آخر میں ایک خاص راز کے بارے میں سنسنی خیز انکشاف کیا ...

ہم نے گفتگو کا آغاز  مجلس شورای اسلامی کے پہلے دور میں ان کی صدارت سے کیا۔

مجلس شورای اسلامی کے پہلے دور کو آغاز ہوئے صرف ایک سال اور چار مہینے کا عرصہ بیت چکا تھا کہ شورائے نگہبان نے پارلیمنٹ کی جانب سے منظور شدہ بعض اہم قوانین اور مسودوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا؛ اسی دوران آیت اللہ ہاشمی نے مصلحت سے متعلق گفتگو کے آغاز میں حضرت امام خمینی کے نام ایک خط تحریر کرتے ہوئے گزارش کی کہ وہ « ولی فقیه » کے عنوان سے مفاسد کے خلاف اور مصلحتوں کی حفاظت پر مشتمل ان قوانین پر عملدر آمد کو یقینی بنانے کےلئے اقدام کریں۔

امام خمینی نے جواب میں اس تجویز کو قبول کرنے کی بجائے خود پارلیمنٹ کی اکثریت کو اس بات کا مستحق گردانا کہ جب تک مصلحت کا موضوع باقی ہے، پارلیمنٹ کی اکثریت حکم ثانوی کے تحت، شریعت کے ابتدائی احکام کو وقتی طورپر، معطل کرسکتی ہے۔

اس جواب کے بعد حوزہ علمیہ کی بعض ممتاز شخصیتوں، جن میں آیت الله العظمی محمد رضا گلپائیگانی بھی شامل تھے، نے اس بات پر اعتراض کیا اور اسی اثنا شورائے نگہبان کے بعض فقہاء نے امام خمینی کی شاگردی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے حوزہ علمیہ میں موجود مراجع اور ناقدین کی نمائندگی کو اپنا وظیفہ سمجھا!!

جبکہ دوسری جانب امام خمینی، شورائے نگهبان کی اس خاص ترکیب کے ذریعے، مراجع کے ساتھ اپنے اختلاف کو پارلیمنٹ اور شورائے نگهبان کی حد تک کم کرکے اس کی مدیریت کر رہے تھے۔

اس ضمن میں فقہی اور مذہبی اختلافات میں بتدریج شدت آتی گئی اور آیت الله گلپائیگانی کی جانب سے امام خمینی کے فتوے کے خلاف لکھے گئے تفصیلی خط کو بعض افراد نے پارلیمنٹ میں پیش کیا اور ساتھ ہی آیت الله العظمی گلپائیگانی نے درس خارج کے آغاز میں امام خمینی کے مذکورہ  فتوی کے خلاف موقف اپنایا!!

ہاشمی ان دنوں کے بارے میں یوں رقمطراز ہوتے ہیں:

میں نے سنا ... شورائے نگهبان کے اراکین کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران امام خمینی نے بعض اراکین کے اس موقف کے مقابلے میں - جس میں انہوں نے اس حکم کو شورائے نگهبان کے اختیارات میں کمی اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں توسیع قرار دیتے ہوئے اظہار تشویش کیا تھا - فرمایا: " میں نے نہ تو شورائے نگهبان کے اختیارات میں سے کسی اختیار میں کمی کی اور نہ ہی پارلیمنٹ کے کسی اختیار میں اضافہ کیا ہے؛ بلکہ موضوع کی تشخیص، مجلس کا کام ہے اور حکم کے بیان کی ذمہ داری شورائے نگهبان پر عائد ہوتی ہے"۔

(ماخذ: امام خمینی(رح)، آیت الله ہاشمی رفسنجانی کی زبانی ص156)

اسی دوران شورائے نگهبان کے سیکرٹری جنرل، اپنا استعفی پیش کرتے ہیں، تاہم حضرت امام خمینی اسے مسرد کرتے ہیں۔

(ماخذ: صحیفه امام، ج‏15، ص323)

مقالہ نگار: امین کریم الدینی / 9 جنوری 2017ء

جاری ہے

ای میل کریں