آیت اللہ خامنہ ای: اگر ایک مومن نوجوان ہمارے اقدامات کے نتیجے میں صحیح راستے سے بھٹک جائے، تو ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای: اعلی حکام اور عوام، اسلامی نظام کے اصولوں اور بنیادوں کی جانب رجوع کریں؛ امام خمینی (رح) کے وصیت نامے بہترین ماخذ اور ذخیرہ ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خبرگان رہبری کونسل کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات کے دوران فرمایا: خبرگان رہبری کونسل، اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک منفرد، انتہائی اہم اور ملک کے موجودہ دور اور مستقبل کےلئے انتہائی فیصلہ کن، رکن ہے۔ آپ نے کہا: موجودہ دور میں عوام کے مسائل بالخصوص معاشی مسائل کی جانب ملک کے تمام منتظمین کو احساس ذمہ داری سے کام لینا چاہئے اور بلاوقفہ جد و جہد اور استقامتی معیشت کے مثبت اثرات کو عوام کی زندگی میں لاکر، عوام کی باعث فخر ترقی کو مزید فروغ دینا اور پچھلی چار دہائیوں سے جاری رفتار کو اور تیز کرنا چاہئے۔
دریں اثنا قائد انقلاب اسلامی نے مالک اشتر کے نام امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کے مشہور فرمان کے ایک حصے کو نشست میں موجود علما کے سامنے پیش کرتے ہوئے ملک کے منتظمین کو متنبہ کیا کہ وہ ہمہ وقت تیار رہیں کہ اپنے ہر اقدام، ہر سخن، حتی کہ ہر سکوت پر اللہ تعالی اور عوام کے سامنے دلیل لا سکیں اور ان کی جوابدہی کر سکیں۔
آپ نے فرمایا کہ حضرت علی (ع) کے فرامین کے مطابق، اعلی عہدے داروں کے عملی اقدامات ایسے ہوں کہ عوام کےلئے باعث اعتماد ہوں اور ان کی دلچسپی کا سبب بنیں اور ان اقدامات کے نتائج محسوس بھی کئے جاسکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر ملک کے منتظمین میں احساس ذمہ داری ہو اور ان کی شخصیت میں یہ جذبے مسلسل جد و جہد، ہدف تک پہنچنے کی لگن اور مجاہدت کی شکل میں ظاہر ہوں تو یہ اس بات کی علامت ہےکہ وہ اسلامی حکومت کے دائرہ کار میں گامزن ہیں تاہم اگر صورتحال اس کے برخلاف ہوئی تو گویا ہم خدا نخواستہ، حکومت اسلامی کی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔
آپ نے بعض روشن خیال نما افراد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان افراد کا تصور ہےکہ عوام کی خدمت کی بنیاد صرف مغربی تعلیمات کے تحت ہی ہو سکتی ہے، حالانکہ سماجی ذمہ داری اور خدا اور عوام کے سامنے احساس ذمہ داری کا منشا، صرف اسلامی حکومت میں اور قرآنی تعلیمات اور مفاہیم کے تحت ہوسکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خبرگان رہبری کونسل کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے منتظمین میں احساس ذمہ داری، ایک فوری اور واجب فعل ہے اور تمام عہدے دار، عوام کے ثقافتی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں؛ حتی اگر ایک مومن نوجوان ہمارے اقدامات کے نتیجے میں صحیح راستے سے بھٹک جائے، تو ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیا کہ ملک کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں اگر اعلی حکام کے مابین اختلاف رائے پایا جائے تو اس کا بہترین حل، اسلامی نظام کے اصولوں اور بنیادوں کی جانب رجوع کرنا ہے جس کا ذکر بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (رح) کے بیانات میں بار بار کیا گیا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں امام خمینی (رح) کے وصیت نامے کو بہترین ماخذ اور ذخیرہ قرار دیا اور ملک کے اعلی عہدے داروں اور عوام بالخصوص نوجوانوں کو اس سے رجوع کرنے کی تاکید کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اسلامی احکام کو منزل مقصود تک پہنچانے کی تاکید کی اور فرمایا: سامراج کے سامنے مزاحمت، عالمی ظالم طاقتوں اور ان کافر طاقتوں کا مقابلہ جو مسلمانوں پر تسلط پسندی سے کام لینا چاہتے ہیں، اسلامی نظام کے حتمی اور محکم اصولوں میں شامل ہے تاہم سامراج سے مقابلے کا مطلب صرف فوجی کارروائی نہیں بلکہ اس کے مختلف دوسرے پہلو بھی موجود ہیں جیسے ثقافتی، عقلی، سیاسی اور حفاظتی طریقے۔
آپ نے خبرگان رہبری کونسل کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: عوام پسندی، عوام پر بھروسہ، انصاف پسندی، ظلم و بدعنوانی کا مقابلہ، قومی خود اعتمادی اور قومی تفاخر، ثقافتی برتری کا احساس اور بیگانہ ثقافتوں کے سامنے احساس حقارت نہ کرنا، اسلامی جمہوریہ ایران کے محکم اصولوں میں شامل ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں مجاہدانہ کاوشیں، اشرافیت پسندی سے دوری اور معاشرے کے کمزور طبقے سے قربت بھی ایران کے اسلامی انقلاب کے وہ دیگر اصول ہیں جن کی جانب رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے بیانات میں اشارہ کیا۔
آپ نے پیداوار اور روزگار کے نئے مواقع کی فراہمی، مارکیٹ میں جمود کے خاتمے اور اسمگلنگ کی روک تھام اور برآمدات میں اضافے کےلئے تمام اعلی عہدے داروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے معاشی مسائل کا حل ایسی معاشی استقامت میں چھپا ہوا ہے جس کے اصول مستحکم فکری اور عقلی بنیادوں پر استوار ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے بیانات کے دوسرے حصے میں خبرگان رہبری کونسل کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران، حقیقی اسلام کے نفاذ اور اس کے اصول و اقدار کے حصول کو وسیع اور انتھک عوامی تحریک کے ذریعے کامیاب بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی لئے سامراجی طاقتیں اس انقلاب کی کھلی دشمنی پر اتر آئی ہیں اور جب تک ان کے مفادات نہ ٹکرائیں، عالمی سامراج ایسی مسلم حکومتوں کی مخالفت نہیں کرتے جو اسلام کے احکام کی صرف ظاہری صورت پر عمل درآمد کرتے ہوں اور اسی لئے اس قسم کے بعض ممالک سے ان کے اچھے تعلقات بھی قائم ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران میں حقیقی اسلام کے نفاذ کی وجہ سے ملک کو عالمی طاقتوں کی وابستگی اور استحصال سے نجات دلانا ممکن ہوگیا؛ لہذا ایران سے امریکہ اور صیہونی حکومت کی دشمنی، حقیقی، شدید اور عملی ہے تاہم دوسرے ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنی مفادات کی خاطر کھل کر اپنی دشمنی ظاہر نہیں کرتے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دریں اثنا فرمایا: تمام تر حساسیتوں، پریشانیوں اور فکرمندی کے باوجود، ثقافتی شعبے میں بھی ترقی حاصل ہوئی ہے اور آج کے نوجوان، انقلاب کے ابتدائی ایام کے نوجوانوں کے مقابلے میں مزید گہرائی کے ساتھ دفاع اور جاں فشانی کےلئے تیار ہیں۔
مغربی ایشیا میں ایران کا اسٹریٹیجک اور عمیق اثر رسوخ اور دوسرے ممالک کے عوام کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت گذشتہ چار دہائیوں کے دوران ایران کی ترقی و پیشرفت کی واضح علامت ہے اور اسی حقیقت نے امریکہ کو آگ بگولہ کردیا اور ان کے تجزیہ کاروں کو اس بڑھتے اثر رسوخ کے مقابلے کےلئے فکرمند کردیا ہے۔
رہبر معظم نے اس پیشرفت اور کامیابی کو خدائی نعمت قرار دیتے ہوئے، اعلی حکام کو اس نعمت کی قدر پہچاننے کی ہدایت دی۔
ماخذ بمعہ اصلاحات: http://www.leader.ir