امام شناس اشخاص کی ہمیں ضرورت ہے

امام شناس اشخاص کی ہمیں ضرورت ہے

امام خمینی ایک قاعدہ اور کلیت کا نام ہے جس کے عناصر میں امتیاز کا تصور ہرگز ممکن نہیں۔

امام خمینی ایک قاعدہ اور کلیت کا نام ہے جس کے عناصر میں امتیاز کا تصور ہرگز ممکن نہیں۔

ایسنا کے مطابق، حجت ‌الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی اس نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئےکہ امام خمینی، عرفانی، فقہی اور فلسفی اصولوں پرمبنی مکتب کے بانی ہونے کے ساتھ اس کے مجری بھی تھے، کہا: گذرتے وقت کے ساتھ ان افراد تک رسائی ناممکن ہوتی جا رہی ہے جو امام کے ہمنشین ہونے کے ساتھ ان کی نفسیات سے بخوبی واقف تھے۔

انہوں نے امام سے منسوب بعض لوگوں کے اس قول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ "امام دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کےلئے تربوز پر نمک چھڑک کر کھایا کرتے تھے، کہا: لیکن جس امام کو میں جانتا تھا وہ ایسا نہیں تھا؛ وہ بات نادرست ہے۔

انقلابیوں کی پہلی نسل جو "شخصیت امام" کی صحیح تفسیر کرسکتی تھی، رفتہ رفتہ ناپید ہوتی جا رہی ہے اسی لئے آج ہمیں امام شناس اشخاص کی ضرورت ہے۔

یادگار امام نے امام خمینی علیہ الرحمہ کی شخصیت میں تحریف کو "کارٹونی نگاہ" قرار دیتے ہوئے، کہا: اگر ہم "ولايت فقيه" کو حضرت امام خمینی کے افکار میں ایک اہم عنصر کے طور پر جانتے ہوئے اسے متعارف کرنے کےلئے پر عزم ہیں تو وہیں ہمیں لوگوں کے حقوق پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے اور جب بھی لوگوں کے حقوق پر تاکید کی بات آتی ہے تو وہاں ضروری ہےکہ لوگوں کے حقوق کو دین کے دائرے میں بیان کیا جائے۔ جہاں ہمیں ظاہری اقدار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں باطنی اقدار ہر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

امام کے افکار کی روشنی میں جب ہم سامراج کے خلاف مزاحمت کی بات کرتے ہیں تو وہیں فکری جمود کے خلاف بھی مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، یہ بھی امام کے فکری اصولوں میں شامل ہے۔

جہاں ہمیں عیاشی کے خلاف میدان میں وارد ہونے کی ضرورت ہے وہیں ریاکاری کے خلاف بھی موثر اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

سید حسن خمینی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ "امام کے فکری اجزاء کے درمیان پائی جانے والی نسبت کو دگرگوں نہیں ہونے دینا چاہئے، کہا: امام ایک قاعدہ اور کلیت کا نام ہے جس کے عناصر میں امتیاز کا تصور ہرگز ممکن نہیں۔

انہوں نے مزید کہا: مذہبی افکار میں توازن اور اعتدال کے نتیجے میں اسلامی انقلاب، معرض وجود میں آیا، سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام مبارک کو مناسب جگہ پر قرار دئے جانے کے نتیجے میں سماج میں "حسين فهميده" جیسے لوگوں کو پروان چڑھنے کا موقع ملا، تاہم اگر یہ نام، اپنی صحیح جگہ پر قرار نہ پائے تو قاجاریہ دور کی طرح تباہی پھیلانے والی عظیم جنگیں معرض وجود میں آتی ہیں۔

 

حوالہ: ایسنا خبررساں ایجنسی

ای میل کریں