حضرت زینب سلام اللہ علیہا، امیرالمومنین علی ابن ابیطالب اور گرامی دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ و صلواتہ علیہا کی نواسی ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: "میری پھوپھی جان عالمہ غیر معلمہ ہیں"۔
عقیلہ بنی ہاشم زینب (س) ۵ جمادی الاول سن ۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔
روایت میں ہےکہ جب حضرت زینب (س) اس دنیا میں تشریف لائیں تو پیغمبر اکرم (ص) مدینہ میں موجود نہیں تھے۔ لہذٰا حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے امام علی علیہ السلام کو کہا کہ آپ اس بچی کےلئے نام کا انتخاب کریں، لیکن مولائے متقیان نے اپنی پوری زندگی میں رسول خدا کے حکم کو مقدم جانا، بھلا اس موقع پر آپ علیہ السلام نے بی بی دو عالم سے فرمایا: رسول خدا (ص) کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جائے۔ جب پیغمبر اکرم (ص) سفر سے واپس آئے تو حضرت علی علیہ السلام نے انہیں یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اس بچی کا نام بھی آپ انتخاب کریں۔
آپ نے فرمایا: اس کا نام خدا انتخاب کرےگا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ " خدا نے اس بچی کا نام " زینب " رکھا ہے " زینب یعنی باپ کی زینت۔ یہ بچی حقیقی معنوں میں باپ کی زینت ثابت ہوئی۔
جب رسول خدا (ص) حضرت زینب (س) کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نو مولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی (ع) و فاطمہ (س) نے کیا دیکھا کہ رسول خدا (ص) بلند آواز سے گریہ کر رہے ہیں۔
جناب فاطمہ (س) نے آپ سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: "بیٹی، میری اور تمہاری وفات کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں آئیں گی"۔
کتب تاریخی میں شریکۃ الحسین کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً ۶۱ ہے۔
زینب کبری (س) کا بچپن معصومین (ع) کی زیر نگرانی رہا۔ آپ کی تربیت کرنے والی ماں سیدۃ نساء العالمین دختر رسول اللہ (ص) حضرت فاطمہ (س) ہیں، جس کی رضا میں خدا راضی اور جس کے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے۔
آپ نے امیرالمومنین امام علی (ع) جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پائی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص) جو تمام انسانوں کےلئے "اسوہ حسنہ" ہیں، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں۔ اسی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ آپ کی تربیت کس قدر بہترین اور مقدس ماحول میں ہوئی۔
آپ کی شادی ۱۷ ہجری میں آپ کے چچازاد بھائی عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے جن کے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔
امام حسین (ع) اور ان کے جانثاروں نے کرب و بلا سرزمین پر ایک مقدس اور اعلٰی ہدف کی خاطر عظیم قربانی دی لیکن اگر حضرت زینب (س) اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام قربانیان ضائع ہو جاتیں: " کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود "۔
لہذٰا اگر ہم آج شہدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب عقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیہا کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ بلاشبہ اسی وجہ سے انہیں " شریکۃ الحسین " کا لقب دیا گیا ہے۔
اگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کی راہ میں جہاد کیا تو شریکۃ الحسین سلام اللہ علیہا نے اپنے کلام اور اپنے خطبات کے ذریعے اس جہاد کو اس کی اصلی منزل تک پہنچایا۔
نائبۃ الحسین سلام اللہ علیہا کے پہلے ہی خطبے سے یزید و یزیدیت کا نام ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو گیا اور حسین و حسینیت آج بھی زندہ ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام خمینی علیہ الرحمہ: ہمیں اس بات کو ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی کے نشیب و فراز میں ہمیں تلخی اور شیرینی کا سامنا کرنا پڑا ہے ہمیں زندگی میں تلخیوں کا احساس، معرفت کے نہ ہونے کے سبب ہوتا ہے ... جب یزید جیسے شرابی کے دربار میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے متعلق گفتگو ہوتی ہے تو ثانی زہراء(س) قسم کھا کر فرماتی ہیں: ما رَایْنا الّا جَمیلًا؛ ہم نے اچھائی کے سوا کچھ نہ دیکھا۔
زینب کبری(س) کے اس حَسین جملے کی تفسیر یہ ہےکہ انسان کامل کی شہادت، اولیاء خدا کی نگاہ میں بڑی سعادت ہے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس نے جنگ کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے بلکہ اس لئے ہےکہ اس کا جہاد اور دشمن کے خلاف قیام، صرف اور صرف اللہ کےلئے ہے۔
صحیفه امام؛ ج20، ص 204
قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علی کی بیٹی
یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی
یقین نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا
یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی کی بیٹی
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور نرسری دن، مبارک باد
التماس دعا