امریکہ مشرق وسطٰی میں شیعہ اور سنی کو لڑانا اور سعودی عرب کو بھی تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
امام خمینی: اجنبی سے جنگ کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ، دین اور دنیا کے ہتھیار سے لیس ہونا ہے۔ اس پناہ گاہ کو خالی کرنا اور ہتھیار ڈال دینے کی دعوت دینا، اسلام اور اسلامی حکومت سے غداری اور خیانت ہے/۔ صحیفہ امام ؒ، ج۳، ص۳۲۷
اسلام ٹائمز؛ سینئر تجزیہ نگار کا "اسلام ٹائمز" سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ کا ایجنڈا مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے، اسی لئے وہ داعش جیسی تنظیمیں بناتا ہے۔ امریکہ نے لیبیا، شام اور عراق کو تباہ کر دیا۔ اب اس کا اگلا ہدف عرب ممالک ہیں۔ امریکہ سعودی عرب کو بھی تقیسم کرنا چاہتا ہے۔ ہم سب شیعہ ہوں یا سنی، ہمارے لئے حرمین شریفین کی حرمت اپنی جان سے زیادہ ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی سعودی عرب کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، مگر مغربی میڈیا ایسے پروپیگنڈہ کر رہا ہےکہ جیسے مشرق وسطیٰ میں دو مسلمان فرقے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا جو یہودیوں کے زیر اثر ہے، انہیں کیا پڑی کہ وہ بتائیں کہ داعش کیخلاف شیعہ اور سنی مل کر لڑ رہے ہیں۔ عراق ہو یا شام شیعہ اور سنی متحد ہیں اور ان کا ہدف داعش جیسی اسلام دشمن تنظیمیں ہیں۔
اسلام ٹائمز: حلب کو آزادی مل گئی، یہ بہت بڑی پیشرفت ہے، اسکے خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
نقوی: آزادی کے ہمیشہ اچھے اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں، لیکن کیا فریقین اس آزادی کو تسلیم بھی کرتے ہیں یا شکست خوردہ فریق مزاحمت کےلئے کوئی اور راستہ اختیار کر لیتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو حالات دوبارہ بگڑنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ، سعودی عرب اور اتحادی ممالک شامل ہیں۔
گذشتہ دنوں ترکی، روس اور ایران کا اجلاس ہوا ہے، جس میں دمشق کی سالمیت پر اتفاق کیا گیا ہے اور فیصلہ ہوا ہےکہ داعش مسلمانوں کے لبادہ میں دراصل اسلام دشمنوں کی آلہ کار ہے۔
سب کہتے ہیں کہ ہم امن چاہتے ہیں تو پھر سارے حلب کی آزادی کو تسلیم کریں۔ اگر اس آزادی کو تسلیم نہ کیا گیا تو یہ آگ مزید پھیلتی جائےگی اور اردگرد کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: حلب میں تکفیریوں کی شکست کا ردعمل پاکستان میں بھی ہوسکتا ہے؟
نقوی: اس کےلئے یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے حامی کیا سوچ رہے ہیں۔ داعش کو جب تک بیرونی امداد ملتی رہےگی، یہ نہ صرف شام بلکہ پوری دنیا کےلئے خطرہ ہے۔
پاکستانی حکومت نے تو تردید کی ہےکہ داعش کا یہاں کوئی وجود نہیں!! ہمارے سکیورٹی ادارے بھی کہتے ہیں کہ یہاں داعش نہیں، لیکن بہت سی ایسی تنظیمیں ضرور موجود ہیں، جن کے داعش کے ساتھ تعلقات ہیں۔ بہت سے لوگ گئے ہیں شام، داعش میں شمولیت کےلئے، حتٰی یہاں داعش کیلئے بھرتیوں تک کی خبریں منظر عام پر آئیں۔
داعش کوئی فرقہ نہیں، بلکہ یہ ایک خوف ہے جو پاکستان و اسلام دشمن قوتوں نے پیدا کیا ہے، یہ سب پاکستان کیخلاف ہیں۔ ہمارے سکیورٹی ادارے اس صورتحال سے آگاہ ہیں۔
داعش کے نظریاتی خاتمے کےلئے لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہےکہ داعش اسلام کی جنگ نہیں لڑ رہی، نہ یہ اسلام کی ترجمان ہے۔ جو طاقت داعش کے پیچھے ہے، اس کا مقصد مسلم ممالک کو لڑانا ہے، ان کے وسائل تباہ کرنا ہے۔
شام میں بشار الاسد کیخلاف جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلا؟
سرکاری فوج متاثر ہوئی، ملک معاشی بحران کا شکار ہوا، یہ سب کیوں ہوا؟
صرف اس لئے کہ شام خطے میں واحد ملک تھا جو اسرائیل کو چیلنج کرتا تھا۔ شام کو اسی جرم میں کمزور کرنے کےلئے داعش کو گلے ڈال دیا گیا۔ اس سے مسلمان نے مسلمان کا گلہ کاٹا۔ یہ داعش مسلمانوں کے لبادہ میں دراصل اسلام دشمنوں کی آلہ کار ہے۔ کہاں تھا یہ ابوبکر البغدادی پہلے؟
اسے تو کوئی جانتا تک نہیں تھا، اچانک کہاں سے نکل آیا؟
یہ سب اسلام دشمنوں کی پیداوار ہے اور ان کا مقصد صرف اسلام اور مسلم ممالک کو نقصان پہنچانا ہے۔ دشمن چاہتا ہے پاکستان میں بھی داعش کا نیٹ ورک قائم کر دیا جائے، لیکن پاکستان کے عوام باشعور ہیں اور ان سازشوں کو سمجھتے ہیں۔ داعش کو پاکستان میں کسی فرقے کی حمایت حاصل نہیں۔
اسلام ٹائمز: اسرائیل کیخلاف اقوام متحدہ میں قرارداد کے پاس ہونے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
نقوی: اسرائیل کیخلاف اقوام متحدہ میں قرارداد کا پاس ہونا اچھا پیغام ہے۔ پہلی بار امریکہ کھل کر اسرائیل کیخلاف آیا ہے، لیکن آپ دیکھیں کہ اگلے دن اسرائیل کے وزیر اعظم نے ان ممالک کے سفیروں کو طلب کرکے احتجاج کیا اور کہا: اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھےگا!!
اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ پیغام عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ان ممالک کو چاہیے کہ اسرائیل کیخلاف اقتصادی و تجارتی پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکہ و برطانیہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت روک دیں، لیکن اس قرارداد کے باوجود امریکہ اور اسرائیل میں دوستانہ تعلقات برقرار رہیں گے۔
امریکہ اگر خطے میں قیام امن کےلئے سنجیدہ ہے تو اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روک دے۔ اقتصادی پابندیاں عائد کر دے اس سے خطے میں امن قائم ہو جائےگا۔
اسلام ٹائمز: مشرق وسطٰی میں امریکہ کو مسلسل شکست ہو رہی ہے، مستقبل کا نقشہ کیا دیکھ رہے ہیں؟
نقوی: امریکہ کی تمام پالیسیاں ضروری نہیں کہ کامیاب ہوں، بہت سی پالیسیاں ناکام بھی ہوئی ہیں، اس سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کو بھی بہت نقصان پہنچا، امریکہ مشرق وسطٰی کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ وہ شیعہ اور سنی کا بلاک بنانا چاہتا ہے۔ اس کی پالیسی یہ ہےکہ دونوں کو آپس میں لڑایا جائے اور اپنا اسلحہ فروخت اور اپنے مفادات پورے کئے جائیں۔ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا بھی اس کی پالیسی ہے۔
مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ کا ایجنڈا مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے، مضبوط کرنا نہیں۔ اسی لئے وہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں بناتا ہے، امریکہ نے لیبیا، شام اور عراق کو تباہ کر دیا۔ اب اس کا اگلا ہدف عرب ممالک ہیں۔ امریکہ سعودی عرب کو بھی تقیسم کرنا چاہتا ہے۔
ہم سب شیعہ ہوں یا سنی، ہمارے لئے حرمین شریفین کی حرمت اپنی جان سے زیادہ ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی سعودی عرب کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، مگر مغربی میڈیا ایسے پروپیگنڈہ کر رہا ہےکہ جیسے مشرق وسطٰی میں دو مسلمان فرقے آپس میں لڑ رہے ہیں!!
مقدس مقامات سب کےلئے مقدس ہیں، خانہ کعبہ کی حفاظت کےلئے شیعہ سنیوں سے پہلے اپنا خون پیش کریں گے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہےکہ آپ سعودی عرب کے سیاسی نظام سے مطمئن نہ ہوں۔ ہمارے ہاں بھی لوگ نواز شریف سے اور کچھ لوگ زرداری سے مطمئن نہیں، یہ سیاسی اختلاف ہے۔ سعودی عرب سیاسی اختلاف کو مذہب کا رنگ نہ دے۔
اسلام ٹائمز: یمن کے صورتحال کے حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
نقوی: یمن میں بدقسمتی سے لڑائی جاری ہے، فریقین کوشش کے باوجود مذاکرات کی میز پر اکٹھے نہیں ہوسکے۔ اس لڑائی میں نقصان عام آدمی کا ہو رہا ہے۔ جس کا تعلق شیعہ اور سنی دونوں سے ہے۔ یمن کی تباہی کی ذمہ دار بعض علاقائی اور عالمی طاقتیں ہیں، جن کا ایجنڈا مسلم ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔ وہ یمن کو دوبارہ فرقہ واریت کی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
اصل معاملہ یہ ہےکہ یمن ہو یا بحرین، فیصلے کا اختیار وہاں کے عوام کو دیا جانا چاہیے، میں اور آپ فیصلہ نہ کریں کہ کس طرح کا نظام ہونا چاہیے۔
سب سے افسوسناک بات یہ ہےکہ او آئی سی مشرق وسطٰی کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ نواز شریف نے ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کےلئے کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ میرے خیال میں پاکستان کو ہی مشرق وسطٰی کے مسائل کے حل کےلئے اپنا غیر جانبدارانہ اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ کسی ایک فریق کی حمایت میں اور دوسرے کیخلاف فوج بھیجنے کا اقدام قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔