آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی نے سعودی عرب میں موجود اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر سے ملاقات کے دوران مذکورہ دو ممالک کی عالم اسلام میں نیز ان کی عالمی پیمانہ پر اہمیت بیان کرتے ہوئے آپس میں سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا:
پڑوسی ممالک میں دہشتگرد تنظیموں کی کاروائیاں، اسلامی حکومتوں کے آپسی اختلافات کی روشنی میں بڑهتی گئیں جو کہ عالم اسلام کی توہین کا سبب قرار پا رہی ہیں۔
مجمع تشخیص مصلحت نظام کے رئیس آیۃ اللہ رفسنجانی نے اسلامی کی ظم وبربریت سے لبریز تصویر پیش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اضافہ کیا:
دہشتگرد ایک ایسے رحمانی دین کے نام پر جنایتوں کے مرتکب ہوتے ہیں جس کے پیغمبر کی رسالت لوگوں کو عشق، محبت، صلح، حلم وبردباری، مدارا اور آپسی تعاون پر منحصر تهی۔ اس اقدام کے نتیجہ میں مختلف اقوام و ملل کا اسلام سے متنفر ہونا ہے۔
موصوف نے دہشتگردوں کی کاروائیوں کو زمانہ جاہلیت کے کاموں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا:
اسلام کے آسمانی مفاہیم کی نسبت ان کی جہالت، پاک دل اور سادہ مزاج جوانوں کو راہ خدا میں جہاد اور جنت میں داخلہ کے نام پر اسلام اور بشریت کے خلاف کاروائی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
آیۃ اللہ ہاشمی نے افریقہ اور ایشیا کےبعض اسلامی ممالک میں ان دہشتگردوں کے عملی اقدام کو انسانیت کے خلاف جانا اور کہا: بعض حکومتوں سے ان کا اختلاف در حقیقت ایک بہانہ ہے تا کہ دنیا والوں کو اسلام سے بدظن کریں اور صہیونیزم کے جرائم کی توجیہ کر سکیں۔
مجمع تشخیص مصلحت نظام کے رئیس نےمختلف مواقع پر سعودی عرب کے ساته ایران کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
انتہا پسندی اور جہل وجہالت کی دوبارہ پیدائش سے مقابلہ کرنے کے لئے تمام اسلامی ممالک بالخصوص ایران اور سعودی عرب کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ یہ پیغام عام نہ ہونے پائے کہ اسلامی ممالک اور امت مسلمہ کو اپنی حفاظت و امنیت کے لئے بیگانوں کی مدد درکار ہے۔
آقای رفسنجانی نے آج کے اس پر آشوب دور میں علماء کے کردار کو نہایت اہم گردانتے ہوئے کہا:
مسلم علماء بالخصوص پڑوسی ممالک میں ایران اور سعودی عرب جیسے موثر دو ممالک کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہوئے میانہ روی، اتحاد، بهائی چارگی اور نیک کاموں کی، اپنی تحریر و تقریر اور رفتار وگفتار کے ذریعہ دعوت دیں۔
اس ملاقات کے دوران حسین صادقی نے بهی سعودی عرب کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران سے اس ملک کے رابطہ کی جانب اشارہ کیا اور اضافہ کیا کہ جناب آقای رفسنجانی کی دید سعودی عوام اور وہاں کی حکومت و حکمرانوں کے نزدیک گذشتہ کے مانند اب بهی رابطہ کی بنیاد ہے۔
سعودی میں ایران کے سفیر نے مزید کہا: بسا اوقات بعض اقدامات کے نتیجہ میں حسن نیت پر سوء تفاہم غالب آ گیا جو آپسی رابطہ میں کمزوری کا سبب قرار پایا۔