" اپنی حق بات اور عادلانہ نظریہ اور مشورہ دینے سے گریز نہ کریں اور یوں میری مدد کریں۔"
حکومتوں کے کارآمد، کامیاب اور پائیدار رہنے کے عوامل میں سے ایک اعتراضات کا دل و جان سے استقبال کرنا اور انتقادات کو سننا، جانا گیا ہے۔ کیوںکہ تعمیری، مثبت اور سالم اعتراض، فرد اور معاشرے کے رُشد، بالندگی اور ہدایت کے اسباب میں سے ایک۔
مولا امیرالمومنین علی(ع) اس بارے میں فرماتے ہیں:
" اپنی حق بات اور عادلانہ نظریہ اور مشورہ دینے سے گریز نہ کریں اور یوں میری مدد کریں۔"
[نہج البلاغہ؛ خطبہ۲۱۶]
اسی لئے امام خمینی(رح) بھی بجا اعتراض اور تعمیری تنقید کو معاشرے کے پروان چڑھنے اور اصلاح کے باعث جانتے تھے اور فرماتے ہیں:
تعمیری اعتراض، معاشرے کی پیشرفت و بالندگی کا باعث بنا ہے۔ اعتراض اگر حق ہو، ہدایت کا باعث ہوگی۔
[صحیفہ امام؛ ج۲۱،ص۱۶۹]
اور امور کی اصلاح کےلئے ضروری ہے ... انسان سرتا پا غلطی سے بھرا ہوا ہے اور اسے اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرے کی اصلاح ہوسکے۔
[صحیفہ امام؛ ج۱۴، ص۴۰۱]
حکومت کے ذمہ داروں کو کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ " ہم حکومت ہیں اور جو بھی مسئلہ ہم پیش کرتے ہیں، قوم کو قبول کرنا ہوگا، چاہے ان کے فائدہ میں ہو یا نہ ہو"۔
[صحیفہ امام؛ ج۱۵، ص۳۵۴]
امام کی نظر میں ایسی سوچ اور خیالات شیطانی وسوسے ہیں اور یہ شیطان ہے جو وسوسہ ڈالتا ہےکہ اب اقتدار تمہارے ہاتھ میں ہے، دوسرے کون ہوتے ہیں؟
اگر انسان اپنی کافی شناخت رکھتا تو کبھی بھی ایک رعیت کے اعتراض سے ناراض نہیں ہوتا۔ [صحیفہ امام؛ ج۱۳، ص۱۹۸]
اسی لئے امام خمینی(رح) ملت کو اعتراض و نظارت کرنے اور حکومت کو عوام کے اعتراضات پر سوچنے کی سفارش کرتے ہیں: تم سب رعیت ہو اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں ذمہ دار ہو۔
[صحیفہ امام؛ ج۱۰، ص۱۱۰]