بابا جان نے رب کی آواز پر لبیک کہا

بابا جان نے رب کی آواز پر لبیک کہا

حضرت زہراء(س):اے انس! تمہارے دلوں نے یہ کس طرح گوارا کیا کہ آنحضرت کے جسد مبارک پر مٹی ڈالی جائے۔

حضرت زہراء(س):اے انس! تمہارے دلوں نے یہ کس طرح گوارا کیا کہ آنحضرت کے جسد مبارک پر مٹی ڈالی جائے۔

۱۱ ھ ۲۸ صفر سوموار کے دن رسول اکرم(ص) کی وفات ہوئی، چالیس سال کی عمر میں آپ تبلیغ رسالت کےلئے مبعوث ہوئے، اس کے بعد تیرہ سال تک مکہ معظمہ میں لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دیتے رہے۔ پھر مدینہ منورہ میں دس سال تک، تبلیغ و تعلیم و جہاد فی سبیل اللہ کے سلسلہ جاری و ساری رکھا، ابلاغ رسالت کے دوران بحکم اللہ، ہر موڑ پر اور ہر حساس مواقع پر اپنے جانشین اور وصی کے بارے بھی سرا اور علانیہ بیانات سناتے رہے یہاں تک کہ فرمایا:

إِنِّی تَارِکٌ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، کِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی؛ میں تمہارے درمیان دو گراں بہا امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک ان دو سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوجاوگے، کتاب خدا اور میری عترت۔

نبی اللہ الاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ ۲۳ سال انتھک زحمات اور مزاحمتیں برداشت کرنے کے بعد اٹھائیس صفر سنہ ۱۱ ہجری قمری کو اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی گئے؛ وصی برحق ابن عم مصطفی، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے بذات خود اور دستان مبارک سے آپ کو غسل و کفن دیا، حنوط کیا اور آپ کی نماز جنازہ پڑھی پھر دوسرے لوگوں نے بغیر کسی امام کے گروہ در گروہ آپ (ص) کا جنازہ پڑھا، بعد میں امیرالمؤمنین(ع) نے آنحضرت(ص) کو اسی حجرے میں دفن کیا، جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی۔

انس ابن مالک سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے دفن کے بعد جناب سیدہ بنت الرسول، الزہراء البتول (سلام اللہ علیھا) میرے قریب آئیں اور فرمایا: اے انس! تمہارے دلوں نے یہ کس طرح گوارا کیا کہ آنحضرت کے جسد مبارک پر مٹی ڈالی جائے۔ پھر آپ(س) نے روتے ہوئے فرمایا:
یٰا اَبَتَاہُ اَجٰابَ رَبّاً دَعٰاہُ /-/ یَا اَبَتَاہُ مِنْ رَبِہِ مَا اَدْنٰاہُ

بابا جان نے رب کی آواز پر لبیک کہا / بابا جان آپ اپنے رب کے کتنے قریب ہیں

صُبَّتْ عَلَیَّ مَصائِبٌ لَوْ أَنَّھا /-/  صُبَّتْ عَلَی الْاَیّامِ صِرْنَ لَیالِیا

مجھ پر وہ مصیبتیں پڑی ہیں اگر وہ / دنوں پر آتیں تو وہ کالی راتیں بن جاتے

حجت الاسلام والمسلمین محمد باقر فرزانہ، حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات پر وضاحت دیتے ہوئے کہا: حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے زمانے کے حالات نہایت پیچیدہ اور حق و باطل میں خلط نظر آ رہا تھا، لہٰذا امام مجتبیٰ علیہ السلام کی معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ معاہدہ صلح پر دستخط، ابا عبداللہ حسین علیہ السلام کے کربلا میں قیام کا مقدمہ بنی۔

انہوں نے کہا: امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی معاویہ کے ساتھ صلح، صدر اسلام کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام پائی اور اس نے عاشور کے دن امام شہیدان امام حسین علیہ السلام کے قیام کی شرائط کو مہیا کیا۔

مشہد مقدس کے موقت امام جمعہ نے مزید کہا: بعض لوگ جو امام حسن علیہ السلام کی معاویہ کے ساتھ صلح اور ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کا ادراک نہیں رکھتے تھے لہذا آپ علیہ السلام پر گستاخانہ اعتراضات کیا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے ۲۵ سال بعد تک، ملت مسلمان کو اسلام ناب کی درست تعلیمات سیکھنے کےلئے حضرات معصومین علیہم السلام تک رسائی نہیں تھے لہٰذا مسلمانوں کی ظاہری تعداد میں اضافے کے باوجود، دین حنیف کی حقیقی معرفت رکھنے والے، معاشرے میں بہت ہی کم تھے۔

حجت الاسلام نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ سبط اکبر مصطفی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے معاویہ کے منافقانہ چہرے کو واضح کرنے، معاشرے کو اختلافات سے بچانے اور لوگوں میں دینی ثقافت کے فروغ کےلئے معاویہ سے مصلحتی صلح کی، کہا: جب یزید نے اپنی تمام توانائیوں کو اسلام کی نابودی کےلئے استعمال کرنا شروع کیا تو حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے قیام سے اسلام کو پھر سے حیات نو بخشی اور اپنا خون راہ خدا میں سرزمین کرب و بلا میں جاری کیا اور اہل حرم کو شہر بہ شہر اسیری کی شکل میں پیغام رسان کربلا منتخب فرمایا تاکہ رسالت حضرت رسالتمآب تکمیل تک پہنچے۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ(ص): خداوند متعالی کے نزدیک مومنین میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ وہ ہے جو اپنے نفس کو خدا کی اطاعت پر گامزن کرے اور اپنے پيغمبر کی امت کو وعظ و نصیحت کرے نیز اپنے عيوب کے بارے میں غور و فکر کرکے ان کی اصلاح كرے اور علم حاصل کرے پھر اس پر عمل کرے اور دوسروں کو سیکھائے۔ (إرشاد القلوب إلى الصواب‏1: 14)

قَالَ حَسَنُ بنُ عَلِيٍّ(ع): جب تک یہ پتہ نہ چلے کہ انسان کا آنا جانا کہاں ہے اس سے دوستی اور تعلقات قائم نہ کرو اور جب اس کے بارے میں صحیح طرح آگاه ہو جائے اور اس کی رہن سہن کو پسند کر لیا تو اس کے بعد اس سے رابطہ پیدا کرو، ہاں اس کے بعد جب دوستی کر لیا تو اس کی خطاوں پر چشم پوشی کرو اور مشکلات میں اس کے ساتھ دو۔ (تحف العقول: 233)

 

رحلت رحمت للعالمین حضرت محمد بن عبدالله صلی اللہ علیہ وآلہ اور امام حسن مجتبی(ع) نیز امام علی بن موسی الرضا(ع) کی شہادت کے موقع پر، حضرت بقیۃ اللہ الاعظم اور تمام شيعيان کی خدمت میں تسلیت اور تعزیت عرض کرتے ہیں۔

التماس دعا

ای میل کریں