امام خمینی(رح) کے گھرانے کا اطلاق، امام سے منسوب ایک گروہ پر ہوتا ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین سید رضا اکرمی نے جماران سے گفتگو میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ایک ایسے ملک میں جہاں انقلابی سفر کی بدولت آزادی بیان پایا جاتا ہے، بسا اوقات ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں جو ناخوشگوار ہونے کے باوجود لوگوں کی ںظر میں عادی تصور کئے جاتے ہیں ہے، جس سے آزادی بیان کی غمازی ہوتی ہے۔
جماران کے مطابق، تہران جامعہ روحانیت مبارز کے رکن کا کہنا تھا: امام خمینی علیہ الرحمہ کے گھرانے کا اطلاق، امام سے منسوب ایک گروہ پر ہوتا ہے اور اس گروہ کے دائرہ اختیار میں " موسسہ تنظیم و نشر آثار امام " اور " حرم مطہر حضرت امام خمینی " کے علاوہ کوئی دوسری جگہ نہیں، اس گروہ کی کوئی فرد، تشخیص مصلحت نظام اور گارڈین کونسل سمیت کسی بھی حکومتی ادارے کا ممبر نہیں۔ ایسے میں بعض لوگ ان سے کیوں بے جا توقعات رکھتے ہیں؟!
سید رضا اکرمی نے اس نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ صدر اسلام میں بعض افراد، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کو باضابطہ طور پر غلط معلومات فراہم کرتے تھے لیکن خدا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کو درست اور نادرست امور سے آگاہ کرتا تھا، کہا: آج بھی کچھ ایسے افراد ہیں جو " سوپ سے زیادہ کٹورا گرم " والے محاورے کی مثال پیش کرتے ہیں جن کا کام آلودہ فضاء سے اپنے لئے دال روٹی مہیا کرنا ہے۔ ممکن ہے بعض شخصیات کے حلقہ احباب میں ایسے افراد موجود ہوں جو اس طرح کے ایجنڈے کے تحت جھگڑے اور فساد کےلئے فضاء ہموار کرتے ہوں۔
سید اکرمی نے انقلابی رہنماوں اور ان کے خاندان والوں کی شخصیت کو بدنام کرنے کےلئے کی جانے والی سابقہ تاریخی دریچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس کا آغاز 2009 میں صدارتی امیدواروں کے درمیان ہونے والے مناظرے سے ہوا جہاں مناظرے میں شامل ایک امیدوار نے جناب ہاشمی رفسنجانی اور جناب ناطق نوری سمیت ان کے اہل خانہ پر بے بنیاد الزامات لگا کر ان کی شخصیت کو گرانے کی کوشش کی، اس کے بعد الزام تراشیوں کا دائرہ بتدریج پھیلتا گیا، یہ ایک ایسا برا اخلاقی پہلو تھا جو سماج میں وجود میں آیا اور اب خدا ہی بہتر جانتا ہےکہ اس مسئلے سے نمٹنے کےلئے ہمیں کونسا طریقہ اختیار کرنا چاہیئے۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ