امام خمینی(رح)، سیاسی گروہوں کا نقطہ اشتراک

امام خمینی(رح)، سیاسی گروہوں کا نقطہ اشتراک

امام خمینی(رح) کے اہداف میں سر فہرست، ولایت فقیہ کا بلند و بالا مقام ہے۔

امام خمینی(رح) کے اہداف میں سر فہرست، ولایت فقیہ کا بلند و بالا مقام ہے۔

احمدی نژاد کے بارے میں ان کی رائے ایسی نہیں جیسا آپ تصور کر رہے ہیں۔ احمدی نژاد کے قانونی شکنی اور قانون گریزی کے متعلق پوچھتے تو تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابق حکومت کے صدر قانون کے اجرا اور ابلاغ کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور اسی امر نے حداد عادل کو مجبور کیا تاکہ پارلیمنٹ کی صدارت کے آخری سالوں میں رہبر معظم کے نام، صدر مملکت کی قانونی خلاف ورزیوں کے بارے میں خط لکھیں۔

فرہنگستانِ زبان فارسی کی عمارت کے اصول گرا مَرد، جناب حداد عادل اس بات کے شدید شوقین اور حق میں ہیں کہ اصوگرا گروپ، اصلاح خواہ کے ساتھ مذاکرہ کریں، وہ بھی اختلافاتی نکات پر نہیں بلکہ دونوں گروہ کے اہم اشتراکات پر۔

اعتماد: آج، نظام جمہوری اسلامی ایران اپنے چوتھے عشرہ میں، ایک خاص ترقی، پیشرفت اور ثبات و استقامت کی بلندی پر پہنچی ہے۔ آپ کی نظر میں کلی طور پر اسلامی نظام کو کس قسم کی مشکلات اور چلینجوں کا سامنا ہے؟

حداد عادل: میری نظر میں اس بحرانوں سے بھری دنیا میں ایک دینی حکومت کا چار عشرہ تک دوام پانا، خود ایک بڑی کامیابی اور جیت ہے۔

میرا تصور یہ ہےکہ اگر ہم اپنے وقتی جذبات کو اپنے فیصلوں اور سوچ و فکر کی بنیاد اور مرکز قرار نہ دیں تو ہمیں یہ بات مانی پڑےگی کہ ہمارے معاشرے میں سیاست کے میدان میں دو تحریکوں کا وجود اور حضور ایک مسلم حقیقت ہے۔ ایک کا نام اصولگرا ہے اور دوسرا اصلاح طلب ہے۔

عام طور پر جب اصول گرا اور اصلاح خواہ کی بات ہوتی ہے تو لوگ کے اذہان، ان کے درمیان موجود اختلاف نظر اور تضاد کی سمت جاتے ہیں۔ جب بھی کہیں بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں: ہم نے یہ کہا اور انھوں نے یہ کہا؟ یعنی فوراً سب کو اختلافات، کشیدگیاں نظر آتیں ہیں!!

اعتماد: اصولی طور پر اصلاح خواہ اور اصول گرا کیا کیا اشتراکاتی نکات رکھتے ہیں اور کن موارد میں مشترک اور یکجہت ہوسکتے ہیں؟

حداد عادل: ہم سب کا دعوا ہےکہ ہم " انقلاب اسلامی کے گھرانے " سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم سب ملک کے استقلال کے معتقد ہیں۔ یہ بات طے شدہ کہ ملک کا استقلال ہمارا نصب العین اور آرزوؤں میں سے ہے۔ انقلاب اسلامی بر پا کرنے میں ہم سب کا مشترکہ اہداف اور آرزوؤں میں سے ایک وطن عزیز کی آزادی اور خود مختاری تھی۔

ایک اور اصل جس کے ہم معتقد ہیں وہ جمہوری اسلامی ہے جو درحقیقت امام (رح) کا نصب العین اور تمنا ہے اور ہم سب اس بات کو دل و جان سے مانتے ہیں کہ مختلف سیاسی گروہوں میں ایک مشترکہ امر جو انقلاب اسلامی کی وفاداری اور امام خمینی(رح) کے اہداف سے بالکل مربوط ہے اور سر فہرست، ولایت فقیہ کا بلند و بالا مقام ہے۔

اگر اس نگاہ کے ساتھ  ماحول کو اعتدال اور نرمی بخشیں اس صورت میں ہم ایک سیاسی بلوغ تک پہنچیں گے جس میں ہم اختلاف نظر کے ساتھ، اہم مشترکہ نکات کی پاسداری کریں گے اور اسی کو گفت و شنود کا محور قرار دیں گے۔ یہ وہ نکتہ ہےکہ اس تک پہنچنے میں ہم کچھ حد تک کامیاب ہوئے ہیں لیکن ابھی بھی ایک لمبا راستے طے کرنا باقی ہے تاکہ چار عشرہ کے بعد سیاسی بلوغ تک پہنچیں۔

اعتماد: لوگ، حکومت کے حوالے سے اصول گرا اور اصلاح خواہ کی سیاسی رفتار پر غور سے دیکھ رہے ہیں؛ کیا آپ کی رائے میں اصلاح خواہ کی کامیابی کی بنیادی وجہ جوہری مذاکرات و معاہدات کے متعلق سیاسی کردار میں مضمر نہیں ہیں؟

حداد عادل: نہیں! سچ بات یہ ہےکہ میری رائے میں کچھ لوگ جوہری معاہدے کے مسئلے میں بہت فکرمند تھےکہ کہیں ایران کی عوام  کے ساتھ  دھوکہ نہ ہوجائے۔ مقام معظم رہبری کی گفتگو سے بھی یہی محسوس ہوتا تھا۔ آپ پہلے دن سے مذاکرات کے حق میں تھے اور آپ نے فرمایا: جائیں اور مذاکرات کریں لیکن پہلے دن بتایا: " ہوشیار اور بیدار رہیں "۔

میرے خیال میں جوہری مذاکرات میں سب سے زیادہ خود جناب صدر روحانی فکرمند تھے۔ عوام سب چاہتی ہےکہ مسائل حل ہوں۔ خود ہمارا دل چاہتا ہےکہ مسائل اور مشکلات رفع ہوں لیکن آپ سب آج کی شرائط، حالات اور امریکا کی بدعہدی اور خیانت کاریوں کو خود سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔

اعتماد: آپ نے تین صدر کے ساتھ کام کیا ہے۔ جناب آقائے سید محمد خاتمی، جناب آقائے احمدی نژاد کے دور میں بحیثیت اسپیکر قومی اسمبلی اور جناب آقائے حسن روحانی کے ساتھ مجلس شورائے اسلامی کے رکن کے طورپر، ان چہروں میں سے کس کے ساتھ کام کرنا آپ کےلئے مشکل اور کس کے ساتھ آسان رہا؟

حداد عادل: مشکل سوال ہے لیکن ایک جملہ کہتا ہوں۔ صرف ایک شخص تھا جس کا رد عمل غیر قابل تخمینہ تھا اور وہ جناب آقائے احمدی نژاد تھے!

اعتماد: میں چاہتا ہوں کہ جناب آقائے احمدی نژاد کی خانہ نشینی کا قصہ، آپ کی روایت سے جانوں۔ اس وقت رہبری کی رائے اس موضوع کے بارے میں کیا تھی؟

حداد عادل: ان گیارہ دنوں کے بارے میں کوئی ایسی بات چھپی ڈھکی نہیں رہ گئی ہے جو میں کوئی بات اضافہ کروں اور سب کچھ واضح ہے۔

مجھے یاد ہے واقعہ کا پہلا اور دوسرا دن تھا کہ قومی اسمبلی کے صدر جناب آقائے لاریجانی نے پارلیمنٹ کے ۳۰ نمائندوں کو بولایا تاکہ اس بارے میں گفتگو کریں، میں بھی اس نشست میں تھا۔ مختلف قسم کے شدید مشورے اور رد عمل سامنے آئے۔ میں نے کہا: میں آقائے احمدی نژاد کو پہنچانتا ہوں، رہبری کی بھی قریب سے شناخت رکھتا ہوں؛ قومی اسمبلی کو کوئی اقدام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ احمدی نژاد خود ہتھیار ڈال دیں گے اور کام پر واپس لوٹیں گے! آپ بلاوجہ پریشان نہ ہوں۔ گیاروے دن، وہ میرے پاس آئے اور بتایا کہ احمدی نژاد اپنے کام پر لوٹ چکے ہیں۔

 

ماخذ: روزنامہ اعتماد، جماران خبررساں ویب سائٹ کے مطابق 

ای میل کریں