افغان سے تعلق رکھنے والے محمد علی کلی کا کہنا تھا: امام کی برسی پر حرم مطہر امام جاتا ہوں، آپ کی قبر مطہر کے پاس روتا ہوں۔
محمد علی کلی، وہ مجاہد ہے جو نوجوانی میں اپنی ماں، بیوی اور بچوں کو اسلام کی خاطر چھوڑ کر ایران کا رخ کیا۔ اُس نے تحمیلی جنگ کے سالوں، محاذ جنگ میں گزاری۔ اب اس کی ایک ہی آرزو ہے: ایرانی قومیت مل جائے اور رہنے کےلئے ایک گھر۔
خبر آنلاین: کلی صاحب آپ کہاں پیدا ہوئے ہیں؟ والدین کا پیشہ کیا تھا؟ اپنی جائے زندگی کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں۔
کلی: میں بارگاہ دولت شاہ کے گاوں میں پیدا ہوا ہوں، جو افغانستان غزنی شہر میں واقع ہے۔ والدیں کساں تھے۔ گھر کے تیں بچوں میں دوسرا میرا نمبر ہے۔ ہم، شیعہ اور سنی کی سرحد پر رہتے ہیں، فقیر لیکن بہت مذہبی لوگ ہیں۔ سات سال تک مولوی کے پاس پڑھنے کے بعد مجھے مدرسہ بھیجا گیا۔
خبر آنلاین: سب سے پہلے ایران کے متعلق کیا سنا؟ اس بارے میں ہمیں بتائیں۔
کلی: گاوں کی مسجد میں، ہمارے فقہا اور علمائے اعلام ہمیشہ ایران کا ذکر اور امام خمینی کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ جس وقت لوگ امام کی آواز ریڈیو سے سنتے تھے، آنسو بہاتے تھے۔ مرد اور عورت خیرات اور صدقہ دیتے تھے، یہاں تک کہ انقلاب کامیاب ہوگیا۔ اللہ ان کے مرحومین پر رحمت بھیجے، انھوں نے ہمیں یہ راہ دیکھائی۔
خبر آنلاین: ریڈیو کہاں سے ملا؟
کلی: گاوں میں محمد علی نام کا ایک شخص تھا، اس کے پاس ایک ریڈیو تھا، گاوں والوں نے اس سے کہا: راتوں کو ریڈو مسجد لاو تاکہ سب اس سے استفادہ کریں۔ محمد علی ہر رات ریڈیو مسجد لاتا تھا، ہم سنتے تھے اور گھر لوٹ کر گھر والوں کو خبریں سناتے تھے کہ آغا نے آج یہ کہا، آج یہ حکم دیا ہے؛ سب خوش ہوتے تھے۔
خبر آنلاین: انقلاب ایران کی خبریں سننے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟
کلی: مجھے میری ماں بھیجتی تھی، کہتی تھی: میری جان جاو اور دیکھو آغا نے کیا کہا؟ میری ماں سخت انقلابی تھیں۔ میرے والد بھی ایسے ہی تھے لیکن ماں زیادہ۔ ماں، آغا خمینی کو بہت چاہتی تھی، اس قدر آغا خمینی کے عاشق تھیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ زیان سے توصیف نہیں کرسکتا۔
خبر آنلاین: اپنی ماں کے بارے میں زیادہ بتائیں۔
کلی: میری ماں مجھے بہت چاہتی تھی، چھوٹی عمر میں والد کا انتقال ہوا، والدہ نے مجھے زراعت کا کام سیکھایا۔ جس دن مجھے ایران آنا تھا، ماں نے کہا: بیٹا جاو میں نے تمہیں بڑی زحمتوں سے پالا ہے۔ میری بات پر، نہ، نہ کہنا ۔ جاو آغا کی مدد کرو!
جب گھر سے نکلا، ماں میرے پیچھے نہیں آئی؛ میں واپس لوٹا اور کہا: ماں! آپ مجھے چھوڑ نے باہر کیوں نہیں آئی؟! جب ماموں کے گھر جاتا تھا، میرے پیچھے آتی تھی؟! ابھی ایران جا رہا ہوں، دوسرے ملک میں!
ماں نے کہا: بیٹا جاو، کوئی بری جگہ تو نہیں جا رہے ہو! جاو آغا کی مدد کرنے۔
جتنی کوشش کی، میرے پیچھے نہیں آئی۔ وہی ہماری آخری ملاقات تھی۔
خبر آنلاین: جب ایران آئے، آپ کے دوسرے بھائی وہاں کیا کرتے تھے؟
کلی: جب محاذ جنگ پر میں عراقیوں سے لڑ رہا تھا، میرا بڑا بھائی افغانستان میں بہترین میکانیک اور ڈرائیور تھا۔ جب بھی مجھے فون کرتا تھا، میں کہتا تھا: واجب کفایی ہے، تمہیں یہاں آکر خدمت کرنی ہوگی۔ وہ، اللہ کا بندہ، وہاں سے اُٹھ کر یہاں آیا۔ ایک سال تک خدمت کی۔ کرین، بلڈوزر اور بڑی گاڑیوں پر کام کرتا تھا۔ سنہ ۶۴۔ ۶۵ (1985ء - 1986ء) تک محاذ جنگ پر تھا پھر اپنے کام پر دوبارہ افغانستان لوٹ گیا۔ علاج و معالجہ کےلئے ویزا لیا اور بڑی زحمتیں اور تکلیفیں اٹھائیں۔
خبر آنلاین: اتنی محبت امام سے کیوں تھی؟ کس چیز نے نوجوانی کی عمر میں آپ کو ان کا مجذوب کیا؟
کلی: میں اس وقت بچہ تھا، امام کو صرف ان کی شجاعت، فقاہت، مردانگی اور علم و بصیرت کی خاطر چاہتا تھا۔ حقیقتاً انھیں ایک پیشوا اور رہبر کے عنوان سے چاہتا تھا۔ ہم شیعہ تھے اور امام کی تقلید بھی کرتے تھے اور آپ کی اخلاقی خصوصیات اور امتیازات کی وجہ سے انھیں بہت دوست رکھتے تھے۔
خبر آنلاین: کیا پیش آیا کہ آپ کا فیملی نام محبی سے کلی میں بدل گیا؟ یہ نام کس نے رکھا؟
کلی: سنہ ۱۳۶۰ (۱۹۸۰ء) میں، محاذ جنگ پر تعمیراتی کام کرتا تھا؛ وہاں افراد کم تھے، ہمارا سردار بھاری حمل و نقل کا ذمہ دار تھا، جیسے ہی ہمیں بےکار دیکھتا، فورآ کسی کام کے پیچھے بھیجتا تھا، انھوں نے کئی مرتبہ مجھے '' کلی '' کے نام سے پکارا، بعد میں دوسرے سب مجھے '' کلی '' کہنے لگیں۔
خبر آنلاین: اسی کی وجہ سے محمد علی کلی سے مشہور ہوئے؟
کلی: جی، کہتا تھا: کیسا ہوسکتا ہےکہ امریکا والوں کے پاس قہرمان ہو اور ہمارے پاس نہ ہو؟
خبر آنلاین: جنگ کے بعد افغانستان کیوں نہیں لوٹے؟
کلی: جنگ کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں سونپی گئی۔ تمام فورسز کو واپس لوٹنا تھا، وہاں اس قدر سامان پڑا ہوا تھا جن کو کسی جگہ خالی کرنا ضروری تھا، سرحدوں کی حدود کا تعین لازمی تھا۔ اقوام متحدہ حدود کا تعین کرتا جاتا تھا اور ہم مورچے بناتے جاتے تھے۔ ان تمام فورسز کو پانی اور غذا کی ضرورت تھی۔ سنہ ۷۸ اور ۷۹ (1999ء ۔ 2000ء) کو اہواز آیا، لیکن اُس وقت تک میں محاذ پر تھا۔
خبر آنلاین: جب امام انتقال کرگئے، آپ کہاں تھے؟ اور رحلت کی خبر آپ تک کیسے پہنچی؟
کلی: مجھے جوہری توانائی کے پلانت پر تعین کیا گیا تھا۔ میں چہار محال و بختیاری، قمر بنی ہاشم کے بریگیڈ ۴ میں تھا۔ صبح کا ناشتہ کر رہے تھےکہ آغا حیاتی نے خبروں میں بتایا۔
شاید آپ کو یقین نہ آئے، آدھی رات تک میں رو رہا تھا۔ اتنا اپنے والد اور والدہ کی وفات پر بھی نہیں رویا تھا۔ ہر سال امام کی برسی پر حرم مطہر امام جاتا ہوں، آپ کی قبر مطہر کے پاس روتا ہوں۔
خبر آنلاین: کیا جب ایران آئے تھے، شادی شدہ تھے؟
کلی: جی، ماں نے میری شادی بہت جلد کی اور اللہ تعالی نے بھی ایک بیٹا اور ایک بیٹی عطا کی۔ بیٹوں کو جب میں محاذ جنگ پر تھا، دشمن نے قتل کر ڈالا، لیکن میں مغموم نہیں ہوا، لیکن امام کی خاطر بہت غم و غصہ مجھ پر طاری ہوا۔ میری بیٹی ہے، ماشاء اللہ اس کے بچے جوان ہوچکے ہیں۔ ایک ۱۲سال کا اور یہ بھی چھوٹا ہے۔
خبر آنلاین: آپ کے بیٹے کا نام کیا تھا اور کس سال میں مارا گیا؟
کلی: امام کا ہم نام تھا، روح اللہ
کاغذ پر لکھا گیا ہے سنہ ۷۰ میں، لیکن میری رائے میں، اسناد و مدارک کے تحت، جنگ کا زمانہ تھا۔
خبر آنلاین: کیوں شہر کرج میں رہائیش پذیر ہوئے؟
کلی: میں اہواز شہر میں رہتا تھا۔ ایک جانباز (غازی) میرا دوست تھا جو خود بھی ایک شہید اور جانباز کا بھائی ہے، اس نے مجھے کہا: کرج میں میرا ایک گھر ہے وہاں آ جاو اور ہمارے ساتھ رہو۔ مجھے سانس کی بیماری تھی میں بھی قبول کیا۔ میرا رپورٹ فائل یہاں بھیج دیا گیا اور اب چھ سال سے یہاں ہوں اور میرا گھرانہ سنہ ۷۶ (۱۹۹۱) کو مجھے تلاش کرتے ہوئے یہاں آئے۔
گھر والے پہلے زیارت کےلئے مشہد مشرف ہوگئے اور پھر تہران آئے۔ سردار نے مجھے اپنی پاٹرول گاڑی دی اور کہا کچھ دن بچوں کو تہران کی سیر کراو پھر انھیں اہواز لے کر آ جاو۔ سردار کو ہم سے بہت محبت تھی۔
خبر آنلاین: ۱۷ سال کے بعد جب آپ کی بیوی اور بیٹی نے آپ کو دیکھا تو انھوں کیا ردعمل دیکھایا؟
کلی: ایک لفظ بھی نہیں بول سکے، ایک دو دن بعد گلے اور شکوے شروع ہوگئے۔ میں نے کہا: '' ماں نے مجھے یہاں بھیجا تھا اور یہ سب کچھ ہوا، میرے ہاتھ میں نہیں تھا '' میں رضاکاروں کے علاقے میں تھا اور وہاں گھر والوں کے ساتھ رہنے کےلئے کوئی سہولیت اور تنخواہ نہیں تھا اور میرے ہاتھ خالی تھا۔
خبر آنلاین: کیا آپ ایران میں رہیں گے؟
کلی: حقیقتاً یہ ملک لا وارث نہیں، اس ملک کا صاحب و مالک ہے۔ ۱۴ معصوم (ع) اور بہت سے علمائے اعلام ہیں۔ میری تمنا ہےکہ ایران میں رہوں، یہاں کی عوام سے مجھے بہت محبت ہے، کیوںکہ جب میں بچہ تھا یہاں آیا، میرا گوشت، کھال اور ہڈیاں سب ایرانی بن چکا ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی، امام زمان (عج)، آغا خامنہ ای اور ملک کے ذمہ دار افراد، میری مدد کریں تاکہ ایرانی قومیت لے لوں۔ آپ کی گفتگو سے میرا گزشتہ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ آپ کے سوالوں سے بہت خوشی ہوئی۔
منبع: خبر آنلاین